بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کالا لباس پہننا


سوال

کالے رنگ کا لباس پہننا کیسا ہے ؟

جواب

کالے رنگ کے کپڑے پہننا جائز ہے  بشرطیکہ کسی خاص رسم یا عقیدہ یا سوگ کی بنیاد پرنہ ہو، علامہ شامی نے تو  کالے رنگ کا لباس پہننے کو مستحب قرار دیا ہے، کیوں کہ نبی ﷺ سے سیاہ (کالے ) رنگ کا لباس پہننا ثابت ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ   فتح مکہ والے دن جب نبی ﷺ  مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر کالا عمامہ تھا۔ (ترمذی) ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ ایک صبح گھر سے نکلے دراں حالیکہ آپ ﷺ پر  کالے بالوں کی چادر تھی۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے سیاہ چادر بنائی تو آپ ﷺ نے اسے زیب تن فرمایا۔ غرض فی نفسہ کالے رنگ کے کپڑے پہننے میں تو کوئی حرج نہیں ہے،  البتہ آج کے دور میں مکمل کالا لباس  بعض اہلِ باطل کا شعار بن چکا ہے؛ اس لیے بہتر ہے کہ پورے کالے لباس سے جہاں تک ہوسکے احتیاط رکھیں،(خصوصاً جن دنوں میں وہ کالے لباس کا اہتمام کرتے ہیں ان دنوں میں تو بالکلیہ اجتناب کریں)؛  تاکہ ان کی مشابہت سے بچ جائیں، کیوں کہ فساق و فجار کی مشابہت اختیار کرنا شرعًا ممنوع ہے۔

سنن الترمذي ت بشار (4/ 416):

" باب ما جاء في الثوب الأسود

حدثنا أحمد بن منيع، قال: حدثنا يحيى بن زكريا بن أبي زائدة قال: أخبرني أبي، عن مصعب بن شيبة، عن صفية بنت شيبة، عن عائشة، قالت: خرج النبي صلى الله عليه وسلم ذات غداة وعليه مرط من شعر أسود.هذا حديث حسن غريب صحيح".

سنن أبي داود (4/ 54):

"باب في السواد

حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا همام، عن قتادة، عن مطرف، عن عائشة، رضي الله عنها، قالت: " صنعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم بردة سوداء، فلبسها، فلما عرق فيها وجد ريح الصوف، فقذفها - قال: وأحسبه قال: - وكان تعجبه الريح الطيبة".وفي الحدیث جواز لبس السواد وهو متفق علیه."

(بذل المجهود، باب في السواد، دار البشائر الإسلامیة۱۲/۱۰۱، تحت رقم الحدیث۴۰۷۴، سهارنپور قدیم۵/۵۱)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 755):

"(وندب لبس السواد)

 (قوله: وندب لبس السواد)؛ لأن محمداً ذكر في السير الكبير في باب الغنائم حديثاً يدل على أن لبس السواد مستحب".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 533):

"وفي التتارخانية: ولاتعذر في لبس السواد، وهي آثمة إلا الزوجة في حق زوجها فتعذر إلى ثلاثة أيام. قال في البحر: وظاهره منعها من السواد تأسفاً على موت زوجها فوق الثلاثة".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201606

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں