بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کالا لباس پہننا چاہیے یا نہیں؟


سوال

کالا لباس پہننا چاہیے یا نہیں؟

جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے  کالے رنگ کی چادر  اوڑھنا  اور  سیاہ عمامہ باندھنا ثابت ہے، البتہ مکمل کالا لباس پہننا ثابت نہیں، تاہم سیاہ لباس پہننے کی ممانعت کے حوالہ سے کوئی روایت بھی نہیں ملی، اس لیے فی نفسہ کالا لباس پہننا مرد و عورت دونوں کے لیے جائز ہے، لیکن اس زمانے میں خاص طور پر محرم کے مہینے میں کالے رنگ کا لباس پہننا روافض کا شعار بن چکا ہے، اس لیے جن ایام میں یہ لوگ سیاہ لباس پہنتے ہیں اس دوران اس طبقے کے ساتھ مشابہت سے بچنے کے لیے سیاہ لباس سے اجتناب لازم ہے، نیز فوتگی یا کسی غم کے موقع پر اظہارِ غم کے طور پر سیاہ لباس زیب تن کرنا بے اصل و بدعت ہے، جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

سنن الترمذي ت بشار (4/ 416):

" باب ما جاء في الثوب الأسود

حدثنا أحمد بن منيع، قال: حدثنا يحيى بن زكريا بن أبي زائدة قال: أخبرني أبي، عن مصعب بن شيبة، عن صفية بنت شيبة، عن عائشة، قالت: خرج النبي صلى الله عليه وسلم ذات غداة وعليه مرط من شعر أسود.هذا حديث حسن غريب صحيح".

سنن أبي داود (4/ 54):

"باب في السواد

حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا همام، عن قتادة، عن مطرف، عن عائشة، رضي الله عنها، قالت: " صنعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم بردة سوداء، فلبسها، فلما عرق فيها وجد ريح الصوف، فقذفها - قال: وأحسبه قال: - وكان تعجبه الريح الطيبة".وفي الحدیث جواز لبس السواد وهو متفق علیه."

(بذل المجهود، باب في السواد، دار البشائر الإسلامیة۱۲/۱۰۱، تحت رقم الحدیث۴۰۷۴، سهارنپور قدیم۵/۵۱)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 755):

"(وندب لبس السواد)

 (قوله: وندب لبس السواد)؛ لأن محمداً ذكر في السير الكبير في باب الغنائم حديثاً يدل على أن لبس السواد مستحب".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 533):

"وفي التتارخانية: ولاتعذر في لبس السواد، وهي آثمة إلا الزوجة في حق زوجها فتعذر إلى ثلاثة أيام. قال في البحر: وظاهره منعها من السواد تأسفاً على موت زوجها فوق الثلاثة".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں