بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 محرم 1447ھ 03 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

کالا خضاب لگانے کا حکم


سوال

۱) سوال یہ ہے کہ آج کل سفید بالوں کو بلیک یا اور کلرز لگانے کے لیے جدید جدید کلرز استعمال کیے جاتے ہیں، احادیث میں جو بلیک خضاب کی ممانعت آئی ہے، یہ جدید ہیر (بالوں کے) کلرز میں سے کون سے قسم کے اس ممانعت میں داخل ہیں؟

۲)  یہ بھی واضح کریں کے بلیک خضاب میں مرد و عورت جوان و بوڑھے کا حکم یکساں ہے یا جداگانہ ہے؟

۳)بعض احادیث میں یہ بھی وارد ہے کہ کالے خضاب لگانے والے کا چہرہ بلیک ہوجائے گا تو آیا یہ حدیث صحیح ہےیا نہیں؟ اور یہ حکم جوان و بوڑھے دونوں کےلیے یکساں ہے یا صرف بوڑھے کے لیے؟

نوٹ: اس بات کی بھی وضاحت نہ بھولیں کہ بلیک خضاب کا استعمال مرد و عورت میں سے کن کے لیے جائز ہے۔

جواب

۱) ہر وہ کلر جو بالوں کو کالا کردے (یعنی دیکھنے والے کو  کالا معلوم ہو) وہ کلر لگانا مکروہ تحریمی اور ناجائز ہے۔

۲) مرد ،عورت ،  بوڑھے اور جوان سب کے لیے ایک ہی حکم ہے کہ ان سب کے لیے خالص کالا رنگ لگانا منع ہے،البتہ اس کے علاوہ  سرخی مائل سیاہ رنگ وغیرہ لگانا یا کھتئی رنگ لگانا جائز ہے۔

۳) حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے ایک روایت مروی ہے جس میں  یہ بات مذکور ہے کہ جو کالا رنگ لگائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا چہرہ کالا کردیں گے۔

اس حدیث کے سند میں وضین بن عطاء ہیں، ابن  معین اور ابن حبان نے ان کی توثیق کی ہے جب کہ بعض لوگوں نے ان کی تضعیف بھی کی ہے ، البتہ ابن ہیثم رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد میں یہ بات لکھی ہے کہ جن لوگوں نے تضعیف کی ہے وہ ابن معین اور ابن حبان سے مرتبہ میں چھوٹے ہیں۔ باقی راویوں  کی ابن ہیثم رحمہ اللہ نے بلا اختلاف توثیق کی ہے۔ 

نیز اس حدیث میں جوان اور بوڑھے کی کوئی تفریق نہیں ہے، حدیث مطلق ہے لہذا دونوں کے لیے یہ ہی حکم ہے۔

مجمع الزاوئد میں ہے:

"وعن أبي الدرداء قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من خضب بالسواد ‌سود ‌الله ‌وجهه يوم القيامة» ".

رواه الطبراني، وفيه الوضين بن عطاء، وثقه أحمد وابن معين وابن حبان، وضعفه من هو دونهم في المنزلة، وبقية رجاله ثقات. "

(کتاب اللباس ، باب ما جاء فی الشیب و الخضاب،ج:۵،ص:۱۶۳،مکتبۃ القدسی)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں ہے:

"4452 - وعن ابن عباس - رضي الله عنهما - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: " «يكون قوم في آخر الزمان يخضبون بهذا السواد، كحواصل الحمام، لا يجدون رائحة الجنة» ". رواه أبو داود، والنسائي.

(بهذا السواد) : أراد جنسه لا نوعه المعين، فمعناه باللون الأسود وكأنه كان متعارفا في زمانه الشريف، ولهذا عبر عنه بهذا السواد، أو أراد به السواد الصرف ليخرج الأحمر الذي يضرب إلى السواد كالكتم والحناء، ويؤيده تقييده لقوله: (كحواصل الحمام)."

(کتاب اللباس باب الترجل ج نمبر ۷ ص نمبر۲۸۲۸،دار الفکر)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وقال الجزري: قد جرب الحناء والكتم جميعا فلم يسود، بل يغير صفرة الحناء وحمرته إلى الخضرة ونحوها فقط من غير أن يبلغ إلى السواد، كذا رأيناه وشاهدناه. قلت: الظاهر أن الخلط يختلف، فإن غلب الكتم اسود، وكذا إن استويا، إن غلب الحناء احمر."

(کتاب اللباس باب الترجل ج نمبر ۷ ص نمبر ۲۸۲۷،دار الفکر)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن ابن عباس قال: مر على النبي صلى الله عليه وسلم رجل قد خضب -[1266]- بالحناء فقال: «ما أحسن هذا» . قال: فمر آخر قد خضب بالحناء والكتم فقال: «هذا أحسن من هذا» ثم مر آخر قد خضب بالصفرة فقال: «هذا أحسن من هذا كله» . رواه أبو داود"

(فمر آخر قد خضب بالحناء والكتم) :أي بحيث ما وصل إلى السواد."

(کتاب اللباس باب الترجل ج نمبر ۷ ص نمبر۲۸۲۹ ،دار الفکر)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني" میں ہے:

"وأما الخضاب بالسواد: فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ، ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء، وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه عليه عامة المشايخ. وبنحوه ورد الأثر عن عمر رضي الله عنه."

(کتاب الاستحسان و الکراہیۃ الفصل الحادي والعشرون ج نمبر ۵ ص نمبر ۳۷۷،دار الکتب العلمیۃ)

کفایت المفتی میں ہے:

"مہندی کا خضاب جس سے بال بالکل سیاہ ہوجائیں مکروہ ہے، مہندی اور وسمہ ملا کر لگانے سے خالص سیاہی نہیں آتی وہ جائز ہے۔"

(کتاب الحظر و الاباحۃ ج نمبر ۹ ص نمبر ۱۸۰،دار الاشاعت)

الكوكب الدري على جامع الترمذي  میں ہے:

قوله [إن (2) أحسن ما غير به الشيب الحناء والكتم] الواو بمعنى أو لكن النهي عن كتم الشيب يخصص من ذلك ما لزم فيه الكتم فلم يجز من الحناء والكتم (3) إلا قدر ما ليس فيه الكتم."

(ابواب اللباس ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۴۹،مکتبۃ ندوۃ العلماء)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"سر کے بال جوانی میں سفید ہوجائیں تو سیاہ خضاب لگانا کیسا ہے؟ بینوا توجروا۔

جواب:سیاہ خضاب لگانا سخت گناہ ہے، احادیث  میں اس پر وعید آئی ہے، ایک حدیث میں ہے ۔۔۔۔۔۔لہذا اس سے بالکل احتراز کیا جائے ، اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔ سیاہ خضاب کے علاوہ دوسرے رنگ کا خضاب مثلا سرخ خالص حناء یعنی مہندی کا یا کچھ سیاہی مائل جس میں کتم (ایک قسم کی گھاس ہے جو خضاب کے کام میں آتی ہے) شامل کیا جاتا ہے، جائز ہے۔حدیث میں ہے  الخ۔"

(کتاب الحظر و الاباحہ، ج نمبر ۱۰، ص نمبر ۱۱۷،دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101725

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں