بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شعبان 1446ھ 08 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا وصیت کو معلق کرنا درست ہے؟


سوال

 ایک بیوہ خاتون نے اپنی زندگی میں اپنے ایک بھتیجے کے 2 چھوٹے بچوں کے لیے وصیت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد  چار لاکھ روپے جب ان بچوں کی شادیاں ہو تب دیجئے گا، اب بیوہ کا انتقال ہوگیا ہے ان کے ورثاء میں ایک بھائی کی اہلیہ اور 3 بھتیجیاں، دوسرے بھائی سے 5 بھتیجے اور ایک بھتیجی شامل ہیں، مرحومہ خاتون کی کوئی اولاد نہیں ہے، انہوں نے اپنے ترکہ میں فریج، ہینڈ فین اور گھر کا کچھ سامان چھوڑا ہے، ان کے کفن دفن کے بعد ترکہ میں کل رقم 477500 روپے ہے، ان کی زندگی میں کی گئی وصیت کی کیا اہمیت ہے اور ان کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟جواب عنایت فرمائیں۔

 

جواب

صورت مسئولہ میں مرحومہ کا اپنے ایک بھتیجے کے دو چھوٹے بچوں کے لیے ان کی شادی  کے موقع پر 4 لاکھ روپے کی وصیت کرنا جائز تھا،  مرحومہ کی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعداور اگر کوئی قرض ہو اسے ادا کرنے کے بعد، کل ترکہ (477500)  میں سے  ایک تہائی(159,166.66)رقم  مرحومہ کے وصیت کے مطابق بھتیجے کے مذکورہ دو بچوں کو   آدھی آدھی رقم ان کی شادی کے موقع پر ورثاء کے ذمہ  دینا واجب ہے، البتہ پوری وصیت  (ایک تہائی سے زائد رقم دینے ) پر عمل کرنا تمام عاقل بالغ شرعی ورثاء کی اجازت اور رضامندی پر موقوف ہوگا۔

وصیت نافذ کرنے کے بعد باقی ترکہ  کو 5 حصوں میں تقسیم کر کے ایک، ایک حصہ ہر ایک بھتیجے کو ملے گا، بھائی کی اہلیہ اور بھتیجیوں کا مرحومہ کی میراث میں شرعاً کوئی حق نہیں بنتا۔

تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

مرحومہ پھوپھی مسئلہ :5

بھتیجابھتیجابھتیجابھتیجابھتیجا
11111

فی صد کے اعتبار سے 20.00 فی صد ہر ایک بھتیجے کو ملے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية."

(کتاب الوصایا، الباب الأول في تفسير الوصية وشرط جوازها وحكمها، ج:6، ص:90،رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله والوصية)... وفي البزازية: وتعليقها بالشرط جائز لأنها في الحقيقة إثبات الخلافة عند الموت اهـ ومعنى صحة التعليق أن الشرط إن وجد كان للموصى له المال وإلا فلا شيء له بحر ثم قال في الخانية: لو أوصى بثلثه لأم ولده إن لم تتزوج فقبلت ذلك ثم تزوجت بعد انقضاء عدتها بزمان فلها الثلث بحكم الوصية اهـ."

(باب المتفرقات من ابوابها، ما يبطل بالشرط الفاسد ولا يصح تعليقه به، ج:5، ص:250، ط:سعید)

سراجی فی المیراث میں ہے:

"ومن لا فرض لها من الإناث وأخوها عصبة: لا تصير عصبة بأخيها، كالعم والعمة، المال كله للعم دون العمة."

(باب العصبات، العصفة بغيره، ص:57، بشرى)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607100061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں