میری بہن کی شادی 1998 میں ہوئی تھی، جس کے نتیجہ میں ایک بیٹا پیدا ہوا، شادی کے ایک سال بعد میری بہن کا شوہر غائب ہوگیا، جو کہ تاحال لا پتہ ہے ، اب میری بہن کے رشتے بھی آ رہے ہیں ، تو کیا وہ کہیں اور نکاح کر سکتی ہے؟
شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں ۔
صورت مسئولہ میں اصل حکم تو یہ ہے جب تک مذکورہ خاتون کے شوہر کی موت کی اطلاع نہ مل جائے اس وقت تک اس کا انتظار کرتی رہے، یا شوہر کی عمر جب تک نوے سال نہ ہوجائےاس وقت تک انتظار کرتی رہے، ، البتہ طویل انتظار کے بعد اگر بیوی کے لیے شوہر کا مزید انتظار کرنا بوجہ فقدان نفقہ ممکن نہ رہا ہو، یا بنا شوہر رہنے کی وجہ سے اس کی پاکدامنی متاثر ہونے کا شدید خطرہ لاحق ہو تو اس صورت میں مذکورہ خاتون کو چاہیے کہ وہ عدالت میں حاضر ہو کر لاپتہ شخص سے اپنے نکاح کو بذریعہ گواہان ثابت کرے، اور اس کے لا پتہ ہونے کو ثابت کرکے قاضی سے فسخ نکاح کا مطالبہ کرے، پس مذکورہ خاتون کے نفقہ کا بالکل انتظام نہ ہونے کی صورت میں عدالت مزید ایک ماہ انتظار کرائے، جبکہ پاکدامنی متاثر ہونے کے خطرہ کی صورت میں مزید ایک سال انتظار کروائے، مدت مکمل ہونے کی صورت میں مذکورہ خاتون مجاز عدالت سے دوبارہ رجوع کرے، جس کے بعد قاضی مذکورہ خاتون سے نفقہ کا بندوبست نہ ہونے، اور اس کی جانب سے شوہر کو نفقہ معاف نہ کرنے پر حلف لے، اور پاکدامنی کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں شوہر کے بغیر نہ رہ سکنے پر حلف لینے کے بعد قاضی شوہر کی طرف سے مذکورہ خاتون کو طلاق دے دے، یا مذکورہ خاتون کو اپنی ذات پر طلاق واقع کرنے کا اختیار دے دے، جس کے بعد مذکورہ خاتون اپنی ذات پر طلاق واقع کرلے، اور قاضی نکاح کو فسخ کر دے۔ بہر صورت طلاق کی عدت مکمل تین ماہواریاں گزارنے کے بعد مذکورہ کے لیے کسی اور شخص سے نکاح کرنا جائز ہوگا، مذکورہ طریقہ کار اختیار کیے بغیر کسی اور شخص سے نکاح کرنا مذکورہ خاتون کے لیے جائز نہ ہوگا۔
احسن الفتاوی میں ہے:
"زوجۂ مفقود سے متعلق ترمیم جو مشورہ کے بعد طے ہوئی:
ہم دستخط کنندگان ذیل کے نزدیک مناسب یہ ہے کہ حیلۂ ناجزہ ص:61 میں بعنوان "فائدہ" جو الفاظ لکھے گئے ہیں ان کو مندرجۂ ذیل الفاظ میں تبدیل کر دیا جائے:
فائدہ: زوجۂ مفقود کے لیے قاضی کی عدالت میں فسخِ نکاح کی درخواست کے بعد جو مزید چار سال کے انتظار کاحکم دیا گیا ہے یہ اس صورت میں ہے کہ جب عورت کے لیے نفقہ اور گزارہ کا بھی کچھ انتظام ہو اور عصمت و عفت کے ساتھ یہ مدت گزارنے پر قدرت بھی ہو، اور اگر اس کے نفقہ اور گزارہ کا کوئی انتظام نہ ہو نہ شوہر کے مال سے نہ کسی عزیز و قریب یا حکومت کے تکفل سے خود بھی محنت و مزدوری پردہ اور عفت کے ساتھ کر کے اپنا گزارہ نہیں کر سکتی ، تو جب تک صبر کر سکے شوہر کا انتظار کرے جس کی مدت ایک ماہ سے کم نہ ہو، اس کے بعد قاضی یا کسی مسلمان حاکم مجاز کی عدالت میں فسخِ نکاح کا دعوی دائر کرے۔ اور اگر نفقہ اور گزارہ کا تو انتظام ہے مگر بغیر شوہر کے رہنے میں اپنی عفت و عصمت کا اندیشہ قوی ہے تو سال بھر صبر کرنے کے بعد قاضی کی طرف مرافعہ کرے اور دونوں صورتوں میں گواہوں کے ذریعے یہ ثابت کرے کہ اس کا شوہر فلاں اتنی مدت سےغائب ہے اور اس نے اس کے لیے کوئی نان نفقہ نہیں چھوڑا ، اور نہ کسی کو نفقہ کا ضامن بنایا اور اس نے اپنا نفقہ اس کو معاف بھی نہیں کیا، اور اس پر عورت حلف بھی کرے اور دوسری صورت یعنی عفت کے خطرہ کی حالت میں قسم کھائے کہ میں بغیر شوہر کے اپنی عفت قائم نہیں رکھ سکتی، قاضی کے پاس جب یہ ثبوت مکمل ہوجائے تو قاضی اس کو کہہ دے کہ میں نے تمہارانکاح فسخ کر دیا، یا شوہر کی طرف سے طلاق دے دی یا خود عورت کو اختیار دے دے کہ وہ اپنے نفس پر طلاق واقع کرے اور جب عورت طلاق اپنے نفس پر واقع کرے تو قاضی اس طلاق کو نافذ کر دے۔(کما فی فتوی العلامۃ الفاہاشم من الالحاق حیلۂ ناجزہ)"
(باب خيار الفسخ، ٥ / ٤٢١ - ٤٢٢، ط:ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507101000
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن