بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کئی قسموں کے کفارہ میں تداخل ہوگا یا نہیں؟


سوال

1.کیا ایک قسم کا کفارہ بھی تین روزے ہیں؟

2.  سو قسموں کاکفارہ بھی تین روزے  ہیں یا فرق ہے کفاروں میں؟

جواب

1.قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو، کھجور یا کشمش دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے۔

اور اگر  کوئی ایسا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو مسلسل تین روزے رکھے، اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھے۔

2. کئی قسموں کے کفارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر ایک ہی معاملہ پر مختلف قسمیں کھائی ہیں تو ایک کفارہ سب کی جانب سے کافی ہوجائے گا۔ بصورتِ دیگر ہر قسم کے ٹوٹنے پر الگ کفارہ دینا راجح ہے۔

﴿ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (المائدة: 89)

ترجمہ :اللہ تمہیں تمہاری بے ہودہ  قسموں پر نہیں پکڑتا،  لیکن ان قسموں پرپکڑتا ہے جنہیں تم مستحکم کر دو،  سو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو اوسط درجہ کا کھانا دینا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو دیتے ہو یا دس مسکینوں کو کپڑا پہنانا یا گردن آزاد کرنی،  پھر جو شخص یہ نہ پائے تو  تین دن کے روزے رکھنے ہیں، اسی طرح تمہای قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھاؤ، اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے اپنے حکم بیان کرتا ہے؛ تاکہ تم شکر کرو۔

کفایت المفتی میں ہے:

’’ایک امر پر چند قسموں سے ایک ہی کفارہ کافی ہوجاتا ہے‘‘. (کتاب الیمین و النذر 2/ 245 ط: دار الاشاعت)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 714):

"وفي البحر عن الخلاصة والتجريد: وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين، والمجلس والمجالس سواء؛ ولو قال: عنيت بالثاني الأول ففي حلفه بالله لايقبل، وبحجة أو عمرة يقبل".

و في الرد:

"(قوله: وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين) وفي البغية: كفارات الأيمان إذا كثرت تداخلت، ويخرج بالكفارة الواحدة عن عهدة الجميع. وقال شهاب الأئمة: هذا قول محمد. قال صاحب الأصل: هو المختار عندي. اهـ. مقدسي، ومثله في القهستاني عن المنية".

و في تقريرات الرفعي:

"( قوله : قال صاحب الأصل هو المختار عندي إلخ) لايخفى أن كلاً من البغية و المنية للزاهدي، و معلوم أن ما انفرد به لايعول عليه، فلايعتمد على القول بالتداخل بل يعتمد على ما ذكره غيره من عدم التداخل حتى يوجد تصحيح لخلافه ممن يعتمد عليه في نقله، و مما يدل لتعددها ما ذكره الفتح أول الحدود: أن كفارة الإفطار المغلب فيها جهة العقوبة حتى تداخلت، و إن كفارة الأيمان المغلب فيها جهة العباد اهـ و في الهندية : إذا قال الرجل: و الله و الرحمن لاأفعل كذا كانا يمينين حتى إذا حنث كان عليه كفارتان في ظاهر الرواية اهـ، فعلم أن التعدد في ظاهر الرواية". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109202262

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں