بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کئی مرتبہ تو میری طرف سےآزاد ہے کہنے کا حکم


سوال

کوئی شخص اپنی بیوی کو کافی بار کہہ چکا ہے کہ "تو میری طرف سے آزاد ہے" پھر کچھ عرصہ کے بعد لڑائی ہوئی پھر اس نے کہا کے تو میری طرف سے آزاد ہے اور میں پہلے بھی تم کو طلاق دےچکا ہوں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر واقعتًا  مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو  کئی  مرتبہ  یہ جملہ  کہاہے   کہ :   "تو میری طرف سے آزاد ہے"  تو پہلی مرتبہ  "تو میری طرف سے آزاد ہے"  کہنے سے بیوی پر ایک طلاقِ  بائن واقع ہوگئی تھی، اور نکاح ختم ہوچکاتھا،تجدید نکاح کے بغیر ساتھ رہنا جائز نہیں تھااور تجدید نکاح کے بغیر  اس کے بعد  جتنی  مرتبہ   یہ جملہ   کہا تو اس سے  مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی،نیز شوہر نے جو یہ جملہ کہا کہ" اور میں پہلے بھی تم کو طلاق دےچکا ہوں "اگر اس سے گزشتہ طلاق(تو میری طرف سے آزاد ہے) کی ہی خبر دینا مقصود تھا تو اس سے بھی مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر پہلے کوئی طلاق اس کے علاوہ بھی دی ہے تو اس کی وضاحت فرمائیں۔

اب اگر میاں بیوی دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو  دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ تجدید نکاح کرکے رہ سکتے ہیں، اور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( الصريح يلحق الصريح و ) يلحق ( البائن ) بشرط العدة ( والبائن يلحق الصريح ) الصريح ما لايحتاج إلى نية بائناً كان الواقع به أو رجعياً ··· فتح ( لا ) يلحق البائن (البائن).

(قوله: لايلحق البائن البائن ) المراد بالبائن الذي لايلحق هو ما كان بلفظ الكناية؛ لأنه هو الذي ليس ظاهراً في إنشاء الطلاق، كذا في الفتح.  وقيد بقوله: الذي لايلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولاً أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال وحينئذٍ فيكون المراد بالصريح في الجملة الثانية أعني قولهم: والبائن يلحق الصريح لا البائن هو الصريح الرجعي فقط دون الصريح البائن ...  ومنها ما في الكافي للحاكم الشهيد الذي هو جمع كلام محمد في كتبه ظاهر الرواية حيث قال: وإذا طلقها تطليقةً بائنةً ثم قال لها في عدتها: أنت علي حرام أو خلية أو برية أو بائن أو بتة أو شبه ذلك وهو يريد به الطلاق لم يقع عليها شيء؛ لأنه صادق في قوله: هي علي حرام وهي مني بائن اهـ أي لأنه يمكن جعل الثاني خبراً عن الأول، وظاهر قوله: طلقها تطليقةً بائنةً أن المراد به الصريح البائن بقرينة مقابلته له بألفاظ الكناية، تأمل". 

( كتاب الطلاق، باب الكنايات ۳/ ۳٠۷ و ۳٠۸ ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں