بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تدفین کے بعد متعدد افراد کا کئی بار دعا کروانا


سوال

 ہمارے علاقے میں جب میت ہوجاتی ہے تو جنازے کے بعد دفن کرنے کے بعد ایک بندہ سر کی طرف کھڑا ہوجاتا(سورہ بقرہ کا پہلا رکوع پڑھتا ہے) ہے ،ایک پاؤں کی طرف کھڑا ہوکر (سورہ بقرہ) کا آخری رکوع پڑھتا ہے ۔پھر ایک مولوی دعا کرتا ہے ، اس کے بعد دوسرا مولوی دوسری دعا کرتا ہے ،پھر تیسرا مولوی تیسری دفعہ دعا کرتا ہے۔پھر قبر سے تھوڑا دور ہوکر ایک گول دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں،پھر ایک مولوی کچھ آیات کی تلاوت کرتا ہے، اس کے بعد ایک اور مولوی دعا کرتا ہے۔اب گزارش ہے یہ ہے کہ یہ طریقہ کیسا ہے اور اصل سنت طریقہ ہے؟

جواب

تدفین کے بعد سورہ بقرہ کا شروع اور آخر پڑھنے  اور دعاسے متعلق شرعی طریقہ یہ ہے کہ :

 میت کو دفن کرنے کے بعد جب مٹی ڈالنے کا کام مکمل ہوجائے تو میت کے سرہانے (سر کے پاس) سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیتیں”الم“سے ”المفلحون “  تک پڑھنا، اور میت کی پائینتی (پاؤں کی طرف) پر سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں ”آمن الرسول“سے آخر تک پڑھنا مستحب ہے، اور حدیث سے ثابت ہے، لیکن حدیث اور فقہاء کی عبارات میں اسے سرًّا یا جہرًّا پڑھنے کا حکم صراحتًا کہیں نہیں ملا، اس لیے یہ آیات جہرًا  اور سرًّا دونوں طرح پڑھ سکتے ہیں،  البتہ اکابرین کے فتاوی میں اسے سرًّا پڑھنے کی صراحت موجود ہے، تاہم اس کے  جہرًا پڑھنے کو بھی کسی نے ناجائز نہیں لکھا، لہذا بہتر یہی ہے  کہ اسے سرًّا (آہستہ آواز سے) پڑھا جائے، جہر  کا التزام نہ کیا جائے۔

معجم کبیر میں ہے کہ حضرت لجلاج رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد الرحمن بن علاء رحمہ اللہ کو وصیت کی تھی کہ جب میراانتقال ہوجائے اور میرے لیے قبر تیار کردو تو مجھے قبر میں ڈالتے وقت "بِسْمِ اللّٰهِ وَ عَلٰى مِلَّةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ" پڑھو، میری قبر پر مٹی ڈالو اور پھر میرے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی اور اختتامی  آیتیں پڑھو، کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے۔

نیز  قبر میں تدفین کے بعد اولاً مذکورہ آیات پڑھی جائیں اور آخر میں  کوئی ایک شخص میت کے لیے دعا کروادے، یہی متوارث عمل ہے۔ اور یہ دعا بھی سرًّا بہتر ہے، نیز دعا کے وقت قبلہ رُخ ہوکر دعا کرنا چاہیے۔

جو صورت آپ نے لکھی ہے کہ تین بار دعا کی جاتی ہے، پھر دائرہ بناکر تلاوت کی جاتی ہے اور دوبارہ متعدد بار دعا کا اہتمام ہوتا ہے ، یہ طریقہ ثابت نہیں ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے؛ تاکہ آئندہ اس کے اہتمام کا رواج نہ ہوجائے۔

البتہ یہ یاد رہے کہ تدفین کے بعد اگر کوئی بھی شخص میت کے لیے انفرادی طور پر قبرستان میں کچھ تلاوت کرتا ہے ،یا میت کے ورثاء میں سے کچھ افراد انفرادی تلاوت کرکے میت کو ایصال ثواب کریں اور کچھ دیر قبرستان میں رکیں تو اس میں شرعًا کوئی حرج نہیں، لیکن  سوال میں ذکر کردہ طریقے کے مطابق اجتماعی ہیئت اور التزام سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

         حدیثِ مبارک میں ہے:

'' عن عبد الله بن عمر قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا مات أحدكم فلا تحبسوه وأسرعوا به إلى قبره، وليقرأ عند رأسه فاتحة البقرة وعند رجليه بخاتمة البقرة» . رواه البيهقي في شعب الإيمان. و قال: و الصحيح أنه موقوف عليه."

(1/ 149، باب دفن المیت، الفصل الثالث، ط؛ قدیمی)

         '' فتاوی شامی'' میں ہے:

"و يستحب حثيه من قبل رأسه ثلاثاً، وجلوس ساعة بعد دفنه لدعاء وقراءة بقدر ما ينحر الجزور، ويفرق لحمه.

(قوله: وجلوس إلخ) لما في سنن أبي داود «كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف على قبره وقال: استغفروا لأخيكم، واسألوا الله له التثبيت ؛ فإنه الآن يسأل.» وكان ابن عمر يستحب أن يقرأ على القبر بعد الدفن أول سورة البقرة وخاتمتها''.

(2/237،  باب صلاۃ الجنازۃ، ط؛ سعید)

''الاعتصام للشاطبی'' میں ہے:

''ومنها: (ای من البدع)  التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته''.

(الاعتصام للشاطبي (ص: 53) الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا، ط: دار ابن عفان، السعودية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200435

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں