بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کئی افراد سے بیعت کرنے کا حکم


سوال

کیا ایک جگہ اصلاحی بیعت کرنے کے بعد دوسری جگہ بیعت کرنا درست ہے یا نہیں، جبکہ پہلے والے شیخ صاحب دور ہوں، اور  ان سے رابطہ ممکن نہ ہو ؟

جواب

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ شریعت اور طریقت میں   تحریر فرماتےہیں:

" اگر کوئی شخص ایک شیخ کی خدمت میں خوش اعتقادی کے ساتھ ایک معتد بہ مدت تک رہے، مگر اس کی صحبت میں کچھ تاثیر نہ پائے تو اسے چاہیے کہ دوسری جگہ اپنا مقصود تلاش کرے، کیوں کہ مقصود خدا تعالٰی ہے نہ کہ شیخ، لیکن شیخِ اول سے بد اعتقاد نہ ہو، ممکن ہے کہ وہ کامل مکمل ہو، مگر اس کا حصہ وہاں نہ تھا۔  اسی طرح شیخ کا انتقال قبل حصولِ مقصود کے ہوجائے،  یا ملاقات کی امید نہ ہو ، جب بھی دوسری جگہ تلاش کرے اور یہ خیال نہ کر ے کہ قبر سے فیض لینا کافی ہے، دوسرے شیخ کی کیا ضرورت ہے،  کیوں کہ قبر سے فیضِ تعلیم نہیں ہوسکتا، البتہ صاحبِ نسبت کو احوال کی ترقی ہوتی ہے، سو یہ شخص ابھی محتاج تعلیم ہے، ورنہ کسی کو بھی بیعت کی ضرورت نہ ہوتی، لاکھوں قبریں کاملین بلکہ انبیاء کی موجود ہیں۔ اور بلا ضرورت محض ہوس نا کی سے کئی کئی جگہ بیعت کرنا بہت برا ہے، اس سے بیعت کی برکت جاتی رہتی ہے، اور شیخ کا قلب مکدر ہو جاتا ہے، اور نسبت قطع ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے،  اور ہرجائی مشہور ہوجاتا ہے۔"

(باب سوم: تعلیمات،  ص :  ٣٨٢ - ٣٨٣، ط: البشری) 

لہذا صورت مسئولہ میں اگر  پہلے شیخ  سے استفادہ  ممکن  نہ ہو، تو پہلے شیخ سے  تعلق منقطع کرکے کسی  متبع سنت  شخصیت سے اصلاحی تعلق قائم کرسکتے ہیں، بصورت دیگر متعدد افراد سے اصلاحی  بیعت کرنااصلاح نفس کے لیے مفید نہ ہوگا۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ "القول الجمیل في بيان سواء السبيل" میں تحریر فرماتے ہیں :

" و أما المسئلة السادسة: فاعلم أن تکرار البیعة من رسول اللّٰه -صلی اللّٰه علیه وسلم- مأثور، وکذلك عن الصوفیة، أما من الشیخین فإن کان بظهور خلل فیمن بایعه فلابأس، وکذٰلك بعد موته أو غیبته المنقطعة واما بلاعذر فانه يشبه المتلاعب ويذهب البركة ويصرف الشيوخ عن تعهده."

(شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل، حکمت تکرار بیعت، جواب سوالہشتم، ص: ٣٥، ط : رحمانیہ)

الحاوي للفتاوي للسيوطيمیں ہے:

" مسألة: رجل من الصوفية أخذ العهد على رجل، ثم اختار الرجل شيخا آخر، وأخذ عليه العهد فهل العهد الأول لازم أم الثاني؟

الجواب: لا يلزمه العهد الأول ولا الثاني ولا أصل لذلك."

( كتاب الأضحية، باب جامع، مسائل متفرقة، ١ / ٢٩٧، ط: دار الفكر للطباعة والنشر، بيروت-لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100083

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں