ایک عورت جو اپنے شوہر سے طلاق لے لیتی ہے اس کی ایک بیٹی بھی ہے،اس کے لیے کیا حکم ہے؟
میاں بیوی میں علیحدگی کے بعد بیٹی کی پرورش کا حق نو سال تک اس کی ماں کو ہوتا ہے اور اس دوران اس بچی کا خرچہ اس کے باپ کے ذمہ ہے، اور نو سال کے بعد باپ کو لینے کا اختیار ہو گا۔
نیز اگر سوال کا منشاء کچھ اور ہو تو وضاحت کے ساتھ جواب سے متعلق راہ نمائی لی جاسکتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء، وقدر بسبع، وبه يفتى؛ لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبراً وإلا لا، (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم، بحر بحثاً. وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع، وبه يفتى".
(کتاب الطلاق، باب الحضانة، ج: 3، ص: 566، ط: ایچ، ایم، سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة."
(الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج: 1، صفحہ: 560، ط: رشیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144312100508
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن