بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خریدار کو چیز کے لینے میں اختیار دینا


سوال

جب کوئی شخص کسی دوکان دار  یا ریڑھی والے سے پھل یا سبزیاں خریدتا ہےتو دوکان دار یا ریڑھی والا خریدار سے کہتا ہے کہ ان پھلوں یاسبزیوں میں سے جو آپ کو پسند ہیں وہی لے لو،یعنی  خریدار کو چننے کی اجازت دیتا ہے ،اب سوال یہ ہے کہ مشتری کے لیے چننا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جائز ہے تو جواز کا مطلب صرف عقد کا صحیح ہونا ہے کہ عقد منعقد ہوگا،یا جواز کا مطلب یہ ہے کہ چننے سے ممکن ہے کہ دوکان دار کی دلی رضامندی نہ ہو تو اس سےخریدارگناہ گار  نہیں ہوگا،اور گر یہ جائز نہیں تو بیچنےوالے کی اجازت کا کیا مطلب ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں دوکان دار کا  خریدار کو پھل یا سبزیوں کے چننے کا اختیار دینا بالکل درست ہے، کیوں کہ دوکان دار ا پنی چیز کا مالک ہے اور مالک کو اختیار ہے کہ وہ اپنی چیز میں جیسے چاہے تصرف کرے،ایسا کرنے سے عقد کے انعقاد میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا،نہ ہی اس سے خریدار   گناہ گار ہو گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء."

(کتاب الدعوٰی ،فصل فی بیان حکم الملک ،:264/6:ط:دارالکتب العلمیہ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو وصف شيئا من ذلك بأن قال جيد أو وسط أو رديء فلها الموصوف، ولو جاء بالقيمة تجبر على القبول؛ لأن القيمة هي الأصل ألا ترى أنه لا يعرف الجيد والوسط والرديء إلا باعتبار القيمة فكانت القيمة هي المعرفة بهذه الصفات، فكانت أصلا في الوجوب فكانت أصلا في التسليم، فإذا جاء بها تجبر على قبولها."

(کتاب النکاح :283/2:ط:دارالکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101930

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں