بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانے پرسورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم


سوال

اگر کسی کھانے  پر سورۂ فاتحہ پڑھ کر اس کا ثواب بزرگوں اور اولیا‌ء اللہ کی ارواح میں پہنچایا جائے تو کیا وہ کھانا بابرکت ہو جاتا ہے؟ 

جواب

فاتحہ خوانی  کا شریعت  میں کوئی خاص طریقہ  مقرر  نہیں ہے، جو شخص جس وقت جس دن چاہے، کوئی بھی نفلی عبادت کر کے اُس کا ثواب بزرگوں اور اولیاء اللہ کی ارواح کو ایصال ثواب کر سکتے ہیں۔اگر بغیر کسی خاص التزام  و اہتمام کے ساتھ  ایسا کرنے میں حرج نہیں ہے۔ البتہ کسی خاص اہتمام اور التزام کےساتھباقاعدہ دعوت دے کر جمع کرنا،اور کھانے کا التزام کرنا  اور ان سب باتوں کو باعثِ ثواب اور شریعت کا حصہ سمجھنا بدعت ہے اور ناجائز وممنوع ہے۔

باقی اگر بغیر کسی التزام واہتمام اور کسی رسم کے بغیر سورہ فاتحہ پڑھ لی جائے تو اس میں حرج نہیں ہے اور نہ ہی کھانے کے بابرکت ہونے میں شک ہے۔ تاہم یہ اہلِ  بدعت کا طریقہ ہے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

امداد الفتاوی میں ہے:

"تیجہ، دسواں، چالیسواں وغیرہ سب بدعت کے قبیل سے ہیں اور ہندوستانی کافروں کے رسوم و رواج سے دَر آئی ہیں، اور کھانا سامنے رکھ کر جو کچھ پڑھتے ہیں یہ بھی ہندؤں کا طریقہ ہے، اس قسم کی رسومات کو ترک کرنا لازم ہے؛ کیوں کہ ’’من تشبه بقوم الخ‘‘جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہیں میں سے شمار ہوگا، اور جب کھانے کے ساتھ اس قسم کی بدعتیں بھی ہونے لگیں تو بہتر یہ ہے کہ ایسا کھانا نہ کھایا جائے؛ کیوں کہ حدیث میں ہے’’دع ما یریبك إلى مالا یریبك‘‘مشکوک و مشتبہ چیزوں کو چھوڑ کر غیر مشتبہ چیزوں کو اختیار کرو، اور جو کھانا اور شیرینی بزرگوں کے نام نیاز کی جاتی ہے اس کی دو جہتیں ہیں: بعض جہلاء ان کو تقرب حاصل کرنے اور ان بزرگوں سے اپنی مرادیں مانگنے کی نیت سے کھلاتے ہیں اور شیرینی تقسیم کرتے ہیں، یہ تو شرک ہے، اور اس قسم کا کھانا اور شیرینی کھانا حرام ہے’’وما اهل لغیر اللّٰه‘‘میں داخل ہونے کی وجہ سے، اور بعض حضرات اللہ ہی کے لیے کھلاتے ہیں اور ان کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اے اللہ اس کا ثواب فلاں بزرگ کی روح کو پہنچادے تو یہ جائز ہے، اور اس طرح کا کھانا اور شیرینی وغیرہ سب حلال ہیں"۔

 (ج:  ۵ صفحہ:۲۶۹ )

فتاوی شامی میں ہے:

"فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون- اهـ".

(باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الاستئجار على الطاعات، ج: 6، صفحہ: 56، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100912

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں