بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کاغذات میں ولدیت میں کسی اور کا نام لکھنے کا حکم


سوال

مجھے میرے چچا نے بچپن میں گود لیا تھا، اب میرے تمام سرٹیفکیٹ اسکول اور کالج اور سرکاری کاغذات پر میرے حقیقی والد کی جگہ میرے چچا کا نام لکھا ہے، والد کی جگہ پر اور اب مجھے کسی نے بتایا کہ اس طرح کرنا جائز نہیں ہے اور اس کی بہت سخت وعید ہے، لیکن اب میرے لیے ان تمام سرٹیفکیٹوں کو درست کروانا بہت مشکل ہے، اب میرے لیے کیا ان سرٹیفکیٹ کو اسی طرح رکھنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جو مسئلہ آپ نے سنا ہے وہ درست ہے، لہذا اپنی ولدیت کی نسبت بہرحال اپنے حقیقی والد کی طرف کریں، باقی جو کاغذات والد کی بجائے چچا کے نام سے بنے ان میں سے  جن  اسناد میں تبدیلی ممکن ہے ان میں تبدیلی کےلیے حتی المقدورکوشش لازم ہے اورجن میں ممکن  نہیں یا فی الحال سکت نہیں ہے ،ان میں استطاعت  کے حصول تک ندامت کے ساتھ تاخیر کی گنجائش ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَا جَعَلَ أَدعِيَآءَكُم أَبنَآءَكُم ذَلِكُم قَولُكُم بِأَفوَهِكُم وَاللَّهُ يَقُولُ ٱلحَقَّ وَهُوَ يَهدِي ٱلسَّبِيلَ ٤ ٱدعُوهُم لِأٓبَآئِهِم هُوَ أَقسَطُ عِندَ اللّهِۚ فَإِن لَّم تَعلَمُوٓاْ ءَابَآءَهُم فَإِخوَنُكُم فِي الدِّينِ وَمَوَلِيكُم وَلَيسَ عَلَيكُم جُنَاح فِيمَآ أَخطَأتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَت قُلُوبُكُم وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورا رَّحِيمًا [الأحزاب : 5]      

ترجمہ: اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (چ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (از بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

"عن سعد وأبي بكرة كلاهما يقول: سمعته أذناي ووعاه قلبي محمدًا صلى الله عليه وسلم يقول: «من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام»".

( الصحيح لمسلم ، كتاب الإيمان، باب بيان إيمان من رغب عن أبيه الخ ۱/ ۵۸ ط:قديمي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100788

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں