بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جائیداد کے کاغذات میں دوسرے کا نام لکھوانے سے ملکیت کا حکم


سوال

میں نے اپنے پیسوں سے ایک فلیٹ خریدا تھا، خریدتے وقت مجھ سے ایک غلطی سرزد ہوگئی تھی وہ یہ کہ فلیٹ کے کاغذات بنواتے وقت اپنے نام کے ساتھ اپنے بھائی کی محبت میں بھائی کا نام بھی لکھوادیاتھا، میرا مقصد بھائی کو مالک بنانا نہیں تھا، اور ہم دونوں فیملی ساتھ رہتے تھے جب کہ بھائی نے فلیٹ خریدنے کے لیے کوئی رقم بھی نہیں دی، بعد میں بھائی کا انتقال ہوگیا اور بیوہ نے دوسری شادی کرکے گھر آباد کرلیا۔ اب مذکورہ صورت حال میں  پہلا سوال یہ ہے کہ میں غلطی سے اپنے جس بھائی کا نام اپنے فلیٹ کے کاغذات میں ڈلوایا تھا اس بھائی کا میرے فلیٹ میں کوئی حق بنتا ہے یا نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے مذکورہ فلیٹ میں مرحوم بھائی کی بیوہ جس نے شادی بھی کرلی ہے اس کا حق بنتا ہے یا نہیں؟ جب کہ کورٹ کے احکامات کے مطابق بھی دوسری شادی کرنے کے بعد بیوہ کوئی حق نہیں بنتا۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ مذکورہ فلیٹ میں مرحوم بھائی کی بیٹی اور بھائی، بہنوں کا کوئی حق و حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اور عدالت نے یہ حکم جاری کیا ہے کہ مذکورہ فلیٹ میں مرحوم بھائی جو صرف ایک بیٹی ہے اس کا اور مرحوم کے تمام بھائی، بہنوں ( تین بھائی، دو بہنوں) کا حصہ ہے ۔

کورٹ کے احکام اور فلیٹ کے کاغذات ساتھ منسلک ہیں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ گھر میں تقسیم اور  مرحوم بھائی کامکمل مالکانہ قبضہ  اور تصرف نہ ہونے کی وجہ سے شرعًا وہ گھر مرحوم بھائی کی ملکیت میں نہیں آیا، کاغذات میں صرف نام کردینے سے شرعًا مرحوم بھائی اس کے مالک نہیں بنے؛ لہذا مذکورہ گھر مرحوم بھائی کے ورثاء بیوہ، بیٹی اور دیگر بھائی بہنوں میں شرعًا تقسیم نہیں ہوگا، بلکہ  وہ گھر سائل ہی کا ہے ۔

فتح القدیر میں ہے:

"وتصح بالایجاب والقبول والقبض) أما الإیجاب و القبول فإنه عقد و العقد ینعقد بالایجاب و القبول و القبض لا بدّ منه لثبوت الملك ... ولنا قوله عليه صلی اللہ علیہ وسلم: لاتجوز الهبة إلا مقبوضة.قال العلامة ابن الهمام:قال صاحب النهاية أي: تصح بالإیجاب وحدہ في حقّ الواهب، و بالإیجاب و القبول في حقّ الموهوب له ... و لکن لایملکه الموهوب له إلا بالقبول و القبض."

(کتاب الهبة، ص/۴۷۹،۴۸۰،۴۸۱ ج/۷ ، ط/رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة (وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لا يكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لايكون هبةً."

  (كتاب الهبة، ص/689، ج/5، ط/سعید)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144303100233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں