بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ذو الحجة 1446ھ 13 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

کاغذ پر تین طلاقیں لکھ کر پھاڑدینے کی صورت میں طلاق کا حکم


سوال

شوہر نے پیپر پر تین طلاقیں لکھیں، پھر پیپر پھاڑ ڈالا اور بیوی کو کچھ پتہ نہیں ، تو کیا بیوی پرطلاق واقع ہوگئی؟ حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔

جواب

اگر شوہر نے طلاق کی نسبت بیوی کی جانب کر کے طلاق کے الفاظ تین مرتبہ کسی کاغذ پر لکھے ہوں، تو مذکورہ الفاظ لکھتے ہی اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی، بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جائے گی، نکاح ٹوٹ جائے گا، پھر شوہر کے لئے مطلقہ بیوی سے رجوع کرنا یا دوبارہ نکاح کرنا حرام ہوگا، خواہ شوہر نے بیوی کو طلاق کا بتایا ہو یا نہ بتایا ہو، پس میاں بیوی کے رشتے سے ساتھ رہنا حرام ہوگا، مطلقہ خاتون اپنی عدت (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور ماہواری آتی ہو، حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک) گزار کر کسی اور شخص سے نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغيرمرسومة ... وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة."

(كتاب الطلاق، مطلب في الطلاق بالكتابة، ج: 3، ص: 246، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وإن كتب كتابة ‌مرسومة على طريق الخطاب والرسالة مثل: أن يكتب أما بعد يا فلانة فأنت طالق أو إذا وصل كتابي إليك فأنت طالق يقع به الطلاق، ولو قال: ما أردت به الطلاق أصلا لا يصدق إلا أن يقول: نويت طلاقا من وثاق فيصدق فيما بينه وبين الله عز وجل؛ لأن الكتابة ‌المرسومة جارية مجرى الخطاب ألا ترى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يبلغ بالخطاب مرة وبالكتاب أخرى وبالرسول ثالثا؟ ، وكان التبليغ بالكتاب والرسول كالتبليغ بالخطاب فدل أن الكتابة ‌المرسومة بمنزلة الخطاب فصار كأنه خاطبها بها بالطلاق عند الحضرة فقال لها: أنت طالق أو أرسل إليها رسولا بالطلاق عند الغيبة فإذا قال: ما أردت به الطلاق فقد أراد صرف الكلام عن ظاهره فلا يصدق، ثم إن كتب على الوجه المرسوم ولم يعلقه بشرط بأن كتب أما بعد يا فلانة فأنت وقع الطلاق عقيب كتابة لفظ الطلاق بلا فصل لما ذكرنا أن كتابة قوله: أنت طالق على طريق المخاطبة بمنزلة التلفظ بها."

(كتاب الطلاق، ج: 3، ص: 109، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144611101881

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں