بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کافر نے اسلام لانے سے قبل چوریاں کیں ہوں تو کیا اسلام قبول کرنے کے بعد اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا؟


سوال

فلپائن میں میرے ایک دوست کا چچازاد ہے۔ وہ غیر مسلم ہے، اس نے پہلے وقتوں میں بہت چوریاں کی ہے۔ اب وہ مسلمان ہونا چاہتا ہے۔ لیکن وہ پوچھ رہا ہے کہ  اس کے ساتھ کیا رویہ ہوگا؟  اگر اس کو یہ حکم سنایا جائے کہ تمہارے ہاتھ کاٹے جائیں گے، تو اس ڈر سے اسلام قبول کرنا ترک کر دے گا۔ اور دوسری بات یہ کہ اس وقت فلپائن میں اسلامی قانون بھی نافذ نہیں ہے۔ تو ہم پریشان ہیں کہ ہم اس کو کیا جواب دیں۔ کہ ایک تو وہ مسلمان ہونے پر آمادہ ہو جائے، اور دوسرے بات یہ کہ اگر اسلامی قانون کے مطابق اس کو سزا دیا جائے یعنی ہاتھ کاٹے جائے تو ملک میں گڑ بڑ پیدا ہو سکتی ہے، تو ان دونوں وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری رہنمائی فرمائیں۔

جواب

غیر مسلم اگر اپنے گناہوں اور اپنے سابقہ مذہب سے توبہ وتائب ہوکر سچے دل سے اسلام قبول کرلے  تو اس کے پچھلے تمام  گناہ معاف ہوجاتے ہیں ، اور وہ اس سے پہلے  کافر ملک میں رہتا ہو اور وہاں اس سے نے بہت سے چوریاں کیں ہوں تو اسلام لانے کے بعد اس پر مؤاخذہ نہیں ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر آپ کے دوست کا چچازاد اسلام قبول کرلے تو اس کی سابقہ چوریوں پر مؤاخذہ نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کے ہاتھ کاٹے جائیں گے، بلکہ اسلام قبول کرلینے سے اس کے سابقہ تمام گناہ بھی معاف ہوجائیں گے۔

ایک حدیث میں آتا ہے :

حضرت عمرو بن العاص (آپ مشہور و معروف قریشی صحابی ہیں آپ کی کنیت ابوعبداللہ یا ابومحمد بیان کی گئی ہے آپ کا سن وفات ٤٣ ھ بیان کیا جاتا ہے)۔ فرماتے ہیں کہ  (جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی سے میرے قلب و دماغ کو منور کیا تو ) میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا " یا رسول اللہ !لائیے اپنا ہاتھ آگے بڑھائیے میں آپ ﷺ  سے اسلام کی بیعت کرتا ہوں، آپ نے (یہ سن کر) اپنا ہاتھ (جب) بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آپ ﷺ نے (حیرت سے) فرمایا: عمرو یہ کیا؟ میں نے عرض کیا: " یا رسول اللہ ( ﷺ ) ! میں کچھ شرط لگانا چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا شرط ہے؟ میں نے عرض کیا: (میں چاہتا ہوں) کہ میرے (ان) تمام گناہوں کو مٹا دیا جائے (جو میں نے اسلام سے پہلے کیے تھے) آپ نے فرمایا : اے عمرو ! کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام ان تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے جو قبول اسلام سے پہلے کیے گئے ہوں، ہجرت ان تمام گناہوں کو دور کر دیتی ہے جو اس (ہجرت) سے پہلے کیے گئے ہوں اور حج ان تمام گناہوں کو مٹا دیتاہے جو اس حج سے پہلے کیے گئے ہوں ۔ 

نیز یہ بھی واضح رہے شریعت میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ضرور ہے، لیکن اس سے مراد  ہر قسم کی چوری نہیں ہے، بلکہ اس کی شرائط ہیں، اور اجرائے حدود اور تعزیری سزاؤں سے متعلق تفصیلی احکام اور جزئیات ہیں، بعض صورتوں میں تعزیری سزا ہوتی ہے، اور چوری ثابت کرنے کے لیے عدالت میں دعویٰ کرنا اور شرعی طور پر اس کا ثبوت بھی ضروری ہے، اس کے بعد سزا کے اجرا کا حق بھی اسلامی حکومت کو ہے، نہ کہ ہر مسلمان کو یہ حق ہے کہ وہ مسلمانوں یا غیر مسلموں  کے ملک میں از خود حد جاری کردے۔

مشكاة المصابيح (1/ 15):
وَعَن عَمْرو بن الْعَاصِ قَالَ: «أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقلت ابْسُطْ يَمِينك فلأبايعك [ص:16] فَبسط يَمِينه قَالَ فَقَبَضْتُ يَدِي فَقَالَ مَا لَكَ يَا عَمْرُو قلت أردْت أَن أشْتَرط قَالَ تَشْتَرِطُ مَاذَا قُلْتُ أَنْ يُغْفَرَ لِي قَالَ أما علمت أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا وَأَنَّ الْحَجَّ يهدم مَا كَانَ قبله» 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 82، 84):
 (هي) لغة أخذ الشيء من الغير خفية، وتسمية المسروق سرقة مجاز. وشرعا باعتبار الحرمة أخذه كذلك بغير حق نصابا كان أم لا، وباعتبار القطع (أخذ مكلف) ولو أنثى أو عبدا أو كافرا أو مجنونا حال إفاقته ۔۔۔۔۔۔۔۔  (في دار العدل) فلا يقطع بسرقة في دار حرب أو بغي بدائع
(قوله: أو كافرا) الأولى أو ذميا لما في كافي الحاكم أن الحربي المستأمن إذا سرق في دار الإسلام لم يقطع في قول أبي حنيفة ومحمد.

[تنبيه] في كافي الحاكم: ولا يقطع السارق من مال الحربي المستأمن۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 364):
ومنها ما رواه مسلم في صحيحه مرفوعا «أن الإسلام يهدم ما كان قبله، وأن الهجرة تهدم ما كان قبلها، وأن الحج يهدم ما كان قبله» ومنها ما رواه مالك في الموطإ مرفوعا «ما رئي الشيطان يوما هو أصغر ولا أدحر ولا أغيظ منه في يوم عرفة، وما ذاك إلا لما يرى من تنزل الرحمة وتجاوز الله تعالى عن الذنوب العظام إلا ما رئي يوم بدر فإنه رأى جبريل يزع الملائكة» فإنها تقتضي تكفير الصغائر والكبائر، ولو كانت من حقوق العباد لكن ذكر الأكمل في شرح المشارق أن الإسلام يهدم ما كان قبله أن المقصود أن الذنوب السالفة تحبط بالإسلام والهجرة والحج صغيرة كانت أو كبيرة، وتتناول حقوق الله وحقوق العباد بالنسبة إلى الحربي حتى لو أسلم لا يطالب بشيء منها حتى لو كان قتل وأخذ المال وأحرزه بدار الحرب ثم أسلم لا يؤاخذ بشيء من ذلك وعلى هذا كان الإسلام كافيا في تحصيل مراده

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 622)
هل الحج يكفر الكبائر؟ قيل نعم كحربي أسلم، وقيل: غير المتعلقة بالآدمي كذمي أسلم. 

 (قوله: قيل: نعم إلخ) أي لحديث ابن ماجه في سننه المروي عن عبد الله بن كنانة بن عباس بن مرداس أن أباه أخبره عن أبيه «أن رسول الله صلی الله عليه وسلم دعا لأمته عشية عرفة فأجيب إني قد غفرت لهم ما خلا المظالم فإني آخذ للمظلوم منه، فقال: أي رب إن شئت أعطيت المظلوم الجنة وغفرت للظالم فلم يجب عشية عرفة فلما أصبح بالمزدلفة أعاد الدعاء فأجيب إلى ما سأل» الحديث. وقال ابن حبان: إن كنانة روى عنه ابنه منكر الحديث وكلاهما ساقط الاحتجاج. وقال البيهقي: هذا الحديث له شواهد كثيرة ذكرناها في كتاب الشعب، فإن صح بشواهده ففيه الحجة وإلا فقد قال تعالى {ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء} [النساء: 48] وظلم بعضهم بعضا دون الشرك اهـ وروى ابن المبارك أنه صلى الله عليه وسلم  قال: «إن الله عز وجل قد غفر لأهل عرفات وأهل المشعر وضمن عنهم التبعات، فقام عمر فقال يا رسول الله هذا لنا خاصة؟ قال: هذا لكم ولمن أتى من بعدكم إلى يوم القيامة، فقال عمر - رضي الله عنه - كثر خير ربنا وطاب» وتمامه في الفتح، وساق فيه أحاديث أخر. 

والحاصل أن حديث ابن ماجه وإن ضعف فله شواهد تصححه والآية أيضا تؤيده، ومما يشهد له أيضا حديث البخاري مرفوعا «من حج ولم يرفث ولم يفسق رجع من ذنوبه كيوم ولدته أمه» وحديث مسلم مرفوعا «إن الإسلام يهدم ما كان قبله، وإن الهجرة تهدم ما كان قبلها، وإن الحج يهدم ما كان قبله» " لكن ذكر الأكمل في شرح المشارق في هذا الحديث أن الحربي تحبط ذنوبه كلها بالإسلام والهجرة والحج، حتى لو قتل وأخذ المال وأحرزه بدار الحرب ثم أسلم لم يؤاخذ بشيء من ذلك، وعلى هذا كان الإسلام كافيا في تحصيل مراده، ولكن ذكر صلى الله عليه وسلم  الهجرة والحج تأكيدًا في بشارته وترغيبًا في مبايعته فإن الهجرة والحج لايكفران المظالم ولايقطع فيهما بمحو الكبائر، وإنما يكفران الصغائر". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201424

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں