مفتیان کرام سے درج ذیل مسائل کے بارے میں راہ نمائی کی درخواست کی جاتی ہے:
1۔عام کافر،مرتد اورزندیق میں کیا فرق ہے؟نیز شریعت مطہرہ میں ان کے کیا کیا احکام ہیں؟
2۔موجودہ زمانے کے فرقۂ قادیانیت کے ذبیحہ کا کیا حکم ہے؟
3۔موجودہ زمانے کے قادیانی واجب القتل ہیں یا نہیں؟قادیانی سے مراد وہ قادیانی ہے،جن کے آباء واجداد نے قادیانیت اختیار کرلی تھی اور یہ ان کی اولاد میں سے ہیں یعنی یہ اپنے باپ دادا کے عقیدے کو لے کر آرہے ہیں،اسلام کو چھوڑ کر قادیانیت اختیار نہیں کی ہے۔
4۔مرتد کی کون سی نسل عام کفار کے حکم میں داخل ہوتے ہیں؟اور قادیانی اس حکم میں داخل ہیں کہ نہیں یعنی قادیانی بعد میں عام کفار کے حکم میں داخل ہوسکتے ہیں یا نہیں؟
5۔اگر کسی نے آپ ﷺ کی شان مبارک میں گستاخی کی (العیاذ باللہ) اور گستاخی حقیقی معنوں میں ثابت بھی ہوجائےتو کیاایسے شخص کو فی الفور قتل کیا جائے گا یا دوسرے مرتدین کی طرح ان کو بھی تین دن کی مہلت دی جائے گی؟
6۔اگر گستاخ رسول پکی سچی توبہ کرلےتو کیا اس کی توبہ قضاءً قبول کی جائے گی یا باوجود توبہ کرنے کے اسے قتل کیا جائے گا؟
1۔"کافر"وہ شخص ہےجودین اسلام کو ظاہراً وباطناً ماننے والانہ ہو۔ "زندیق" وہ شخص ہے جوزبان سےتومسلمان ہونےکااقرارکررہاہو لیکن احکامِ اسلام کی باطل تاویل کرتاہو۔ "مرتد" وہ شخص ہےکہ اپنی مرضی اوررضامندی سےاسلام قبول کرنےکے بعد کفریہ کلمہ کہنے یا کفریہ عقیدہ رکھنے کی وجہ سے دینِ اسلام سے لوٹ جائے اور کافر ہو جائے۔ان سب کے احکام علیحدہ اور تفصیل کے ساتھ موجود ہیں،کسی خاص مسئلہ سے متعلق معلوم کرنے کےلیےدارالافتاء سے رجوع کرسکتے ہیں۔
2۔صورتِ مسئوله ميں مرتد وزندیق ہونے کی وجہ سے ہر دور کے قادیانیوں کا ذبيحه حرام هے، خواہ وہ پیدائشی قادیانی ہو یا اسلام چھوڑ کر قادیانیت اختیار کی ہو۔
3۔4۔قادیانی کفریہ عقائد رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتاہے،اور مسلمانوں کو کافر کہتاہے اور اپنے مذہب کو اسلام کا لیبل لگاکر فروغ دیتاہے اور اپنے کفریہ عقائد کو باطل تاویلات کے ذریعہ اسلام باور کراتاہے، ایسے شخص کو شریعت کی اصطلاح میں "زندیق" کہتے ہیں، زندیق کا کفر انتہائی درجہ کا کفر ہے ، پوری ملتِ اسلامیہ متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافروں کی بد ترین قسم "زندیق" اور "کافر محارب" قرار دیتی ہے، قادیانیوں کی سو نسلیں بھی بدل جائیں تو ان کا حکم زندیق اور مرتد کا رہے گا، عام کافر کا حکم نہیں ہوگا، اس لیے کہ ان کا جو جرم ہے یعنی کفر کو اسلام اور اسلام کو کفر کہنا، یہ جرم ان کی آئندہ نسلوں میں بھی پایاجاتا ہے۔
الغرض قادیانی جتنے بھی ہیں خواہ وہ اسلام چھوڑ کر مرتد ہوئے ہوں، یا قادیانیوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہوں اور یہ کفر ان کو ورثے میں ملا ہو، ان سب کا ایک ہی حکم ہے یعنی مرتد اور زندیق ؛ کیوں کہ ان کا جرم صرف یہ نہیں کہ وہ اسلام کو چھوڑکرکافر بنے ہیں، بلکہ ان کا جرم یہ ہے کہ دین اسلام کو کفر کہتے ہیں،اور اپنے دین کفر کو اسلام کا نام دیتے ہیں،اور یہ جرم ہر قادیانی میں پایا جاتا ہے۔ ہاں اگر وہ اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کرلیں تو ان کا حکم بھی تبدیل ہوجائے گا۔
تاہم یہ بات واضح رہے کہ قادیانی اگر چہ مرتد وزندیق ہیں، لیکن حدود و قصاص کا اجراء کسی فرد کا کام نہیں، بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے، لہذا کسی فرد کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر سزا کا نفاذ کرے۔
5۔6۔اگر کوئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کی ناپاک جسارت کرنے کی کوشش کرے، تو ایسے شخص کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر وہ مسلمان ہو، تو شانِ رسالت میں توہین کی وجہ سے مرتد ہوکر دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے،پھراس كے ساتھ وہی معاملہ کیا جاتا ہے جو مرتد کے ساتھ ہوتا ہے،یعنی اسے تین دن کی مہلت دی جائے گی،اگروہ توبہ کرکے مسلمان ہوجائے، تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی، لیکن اگر وہ اپنی اس قبیح و شنیع حرکت سے توبہ کر کے دوبارہ سے اسلام قبول نہ کرے، تو ایسے آدمی کے بارے میں تمام فقہاء كا اجماع ہے كہ اس كی سزا اسلام میں قتل ہے،اورایسی صورت میں اسے فی الفور قتل کردیا جائے گا۔اسی طرح وہ مسلمان شخص جو توبہ کرنے کے بعدبھی اپنے عمل سے باز نہ آتا ہو اور شان اقدس میں باربار گستاخی کرتا رہتا ہو تو اسے بھی بلاکسی مہلت کے فی الفور قتل کیا جائے گا۔
اور اگر کوئی کافر آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی شان اطهر میں نازیبا کلمات کہے، تو اس کے بارے میں حکومتِ وقت کو اختیار ہے کہ اسے تعزیراً سزا دے اور اس سزا کی تعیین حاکمِ وقت کی صواب دید پر موقوف ہے، لیکن اگر اس کے باوجود بھی وہ اپنے اس عمل سے باز نہ آئے، بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرتا رہے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتا رہے، تو اس کی سزا بھی شریعت نے قتل رکھی ہے۔
تاہم یہ بات واضح رہے کہ حدود و قصاص کا اجراء کسی فرد کا کام نہیں، بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے، لہٰذا کسی فرد کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر سزا کا نفاذ کرے،بلکہ اگر اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آجائے، تو مسلمانوں کو چاہیے کہ جائز اور قانونی طریقہ اختیار کر کے حکومت سے اس کی سزا کے نافذکرنے کا مطالبہ کرتے رہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: و كذا الكافر بسبب الزنديق) قال العلامة ابن كمال باشا في رسالته: الزنديق في لسان العرب يطلق على من ينفي الباري تعالى، وعلى من يثبت الشريك، وعلى من ينكر حكمته. والفرق بينه وبين المرتد العموم الوجهي لأنه قد لايكون مرتدًّا، كما لو كان زنديقًا أصليًا غير منتقل عن دين الإسلام، و المرتد قد لايكون زنديقًا كما لو تنصر أو تهود، وقد يكون مسلمًا فيتزندق. وأما في اصطلاح الشرع، فالفرق أظهر لاعتبارهم فيه إبطان الكفر والاعتراف بنبوة نبينا صلى الله عليه وسلم على ما في شرح المقاصد، لكن القيد الثاني في الزنديق الإسلامي بخلاف غيره. والفرق بين الزنديق والمنافق والدهري والملحد مع الاشتراك في إبطان الكفر أن المنافق غير معترف بنبوة نبينا صلى الله عليه وسلم و الدهري كذلك مع إنكاره إسناد الحوادث إلى الصانع المختار سبحانه وتعالى. والملحد: وهو من مال عن الشرع القويم إلى جهة من جهات الكفر، من ألحد في الدين: حاد و عدل لايشترط فيه الاعتراف بنبوة نبينا صلى الله عليه وسلم و لا بوجود الصانع تعالى وبهذا فارق الدهري أيضا، ولا إضمار الكفر وبه فارق المنافق، ولا سبق الإسلام وبه فارق المرتد، فالملحد أوسع فرق الكفر حدا: أي هو أعم من الكل اهـ ملخصًا. قلت: لكن الزنديق باعتبار أنه قد يكون مسلمًا و قد يكون كافرًا من الأصل لايشترط فيه الاعتراف بالنبوة و سيأتي عن الفتح تفسيره بمن لايتدين بدين."
(کتاب الجهاد، باب المرتد،مطلب في الفرق بين الزنديق والمنافق والدهري والملحد،ج:4،ص:241،ط:سعید)
وفیه ایضا:
"باب المرتد هو لغة الراجع مطلقا وشرعا (الراجع عن دين الإسلام وركنها إجراء كلمة الكفر على اللسان بعد الإيمان)
وفي الرد:(قوله وركنها إجراء كلمة الكفر على اللسان) هذا بالنسبة إلى الظاهر الذي يحكم به الحاكم، وإلا فقد تكون بدونه كما لو عرض له اعتقاد باطل أو نوى أن يكفر بعد حين أفاده."
(كتاب الجهاد، باب المرتد،ج:4،ص:221، ط: سعيد)
وفیه ایضا:
"(لا) تحل (ذبيحة) غير كتابي من (وثني ومجوسي ومرتد)"
(کتاب الذبائح، ج:6، ص:298، ط:سعید)
وفیه ایضا:
"(وسب النبي صلى الله عليه وسلم)۔۔۔۔(ويؤدب الذمي ويعاقب على سبه دين الإسلام أو القرآن أو النبي) - صلى الله عليه وسلم - حاوي وغيره قال العيني: واختياري في السب أن يقتل. اهـ.
وفي الرد: (قوله وسب النبي صلى الله عليه وسلم) أي إذا لم يعلن، فلو أعلن بشتمه أو اعتاده قتل، ولو امرأة وبه يفتى اليوم در منتقى وهذا حاصل ما سيذكره الشارح هنا وقيده الخير الرملي بقيد آخر حيث قال أقول: هذا إن لم يشترط انتقاضه به أما إذا شرط انتقض به كما هو ظاهر.۔۔۔۔۔ (قوله ويؤدب الذمي ويعاقب إلخ) أطلقه فشمل تأديبه وعاقبه بالقتل، إذا اعتاده، وأعلن به كما يأتي، ويدل عليه ما قدمناه آنفا عن حافظ الدين النسفي، وتقدم في باب التعزير أنه يقتل المكابر بالظلم وقطاع الطريق والمكاس وجميع الظلمة وجميع الكبائر، وأنه أفتى الناصحي بقتل كل مؤذ. ورأيت في كتاب الصارم المسلول لشيخ الإسلام ابن تيمية الحنبلي ما نصه: وأما أبو حنيفة وأصحابه فقالوا: لا ينتقض العهد بالسب، ولا يقتل الذمي بذلك لكن يعزر على إظهار ذلك كما يعزر على إظهار المنكرات التي ليس لهم فعلها من إظهار أصواتهم بكتابهم ونحو ذلك وحكاه الطحاوي عن الثوري، ومن أصولهم يعني الحنفية أن ما لا قتل فيه عندهم مثل القتل بالمثقل، والجماع في غير القبل إذا تكرر، فللإمام أن يقتل فاعله، وكذلك له أن يزيد على الحد المقدر إذا رأى المصلحة في ذلك ويحملون ما جاء عن النبي - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه من القتل في مثل هذه الجرائم، على أنه رأي المصلحة في ذلك ويسمونه القتل سياسة. وكان حاصله: أن له أن يعزر بالقتل في الجرائم التي تعظمت بالتكرار، وشرع القتل في جنسها؛ ولهذا أفتى أكثرهم بقتل من أكثر من سب النبي - صلى الله عليه وسلم - من أهل الذمة وإن أسلم بعد أخذه، وقالوا يقتل سياسة، وهذا متوجه على أصولهم. اهـ. فقد أفاد أنه يجوز عندنا قتله إذا تكرر منه ذلك وأظهره وقوله وإن أسلم بعد أخذه لم أر من صرح به عندنا لكنه نقله عن مذهبنا وهو ثبت فيقبل (قوله قال العيني إلخ) قال في البحر: لا أصل له في الرواية اهـ ورده الخير الرملي، بأنه لا يلزم من عدم النقض عدم القتل، وقد صرحوا قاطبة بأنه يعزر على ذلك، ويؤدب وهو يدل على جواز قتله زجرا لغيره إذ يجوز الترقي في التعزير إلى القتل، إذا عظم موجبه."
(كتاب الجهاد، ج:4، ص:213 تا 215، ط:سعيد)
وفيه أيضا:
"قلت: ويؤيده أن ابن كمال باشا في أحاديثه الأربعينية في الحديث الرابع والثلاثين: يا عائشة لا تكوني فاحشة ما نصه: والحق أنه يقتل عندنا إذا أعلن بشتمه عليه الصلاة والسلام صرح به في سير الذخيرة، حيث قال: واستدل محمد لبيان قتل المرأة إذا أعلنت بشتم الرسول بما روي «أن عمر بن عدي لما سمع عصماء بنت مروان تؤذي الرسول فقتلها ليلا مدحه صلى الله عليه وسل على ذلك» انتهى فليحفظ.
(قوله حيث قال إلخ) بيانه أن هذا استدلال من الإمام محمد - رحمه الله تعالى -، على جواز قتل المرأة إذا أعلنت بالشتم فهو مخصوص من عموم النهي عن قتل النساء من أهل الحرب، كما ذكره في السير الكبير فيدل على جواز قتل الذمي المنهي عن قتله بعقد الذمة، إذا أعلن بالشتم أيضا، واستدل لذلك في شرح السير الكبير بعدة أحاديث منها: حديث أبي إسحاق الهمداني قال «جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال سمعت امرأة من يهود وهي تشتمك والله يا رسول الله إنها لمحسنة إلي فقتلتها فأهدر النبي صلى الله عليه وسلم دمها»."
(كتاب الجهاد، ج:4، ص:216، ط: سعيد)
وفيه أيضا:
"(الحد) لغة المنع. وشرعا (عقوبة مقدرة وجبت حقا لله تعالى) زجرا، فلا تجوز الشفاعة فيه بعد الوصول للحاكم، وليس مطهرا عندنا بل المطهر التوبة.
قوله بعد الوصول للحاكم) وأما قبل الوصول إليه والثبوت عنده فتجوز الشفاعة عند الرافع له إلى الحاكم ليطلقه؛ لأن وجوب الحد قبل ذلك لم يثبت، فالوجوب لا يثبت بمجرد الفعل بل على الإمام عند الثبوت عنده كذا في الفتح.وظاهره جواز الشفاعة بعد الوصول للحاكم قبل الثبوت عنده، وبه صرح ط عن الحموي (قوله بل المطهر التوبة) فإذا حد ولم يتب يبقى عليه إثم المعصية. وذهب كثير من العلماء إلى أنه مطهر، وأوضح دليلنا في النهر.مطلب التوبة تسقط الحد قبل ثبوته (قوله وأجمعوا إلخ) الظاهر أن المراد أنها لا تسقط الحد الثابت عند الحاكم بعد الرفع إليه، أما قبله فيسقط الحد بالتوبة."
(کتاب الحدود، ج:4، ص:3، ط:سعید)
البنايۃ شرح الھدایۃ میں ہے:
"قال: ولا تؤكل ذبيحة المجوسي لقوله عليه الصلاة والسلام: «سنوا بهم سنة أهل الكتاب غير ناكحي نسائهم ولا آكلي ذبائحهم» ولأنه لا يدعي التوحيد فانعدمت الملة اعتقادا ودعوى.قال: والمرتد لأنه لا ملة له فإنه لا يقر على ما انتقل إليه،
والمرتد) ش: بالجر عطفا على قوله المجوسي يعني لا تؤكل ذبيحة المجوسي وذبيحة المرتد. ولا خلاف في المرتد أنه لا تؤكل ذبيحته م: (لأنه لا ملة له فإنه لا يقر على ما انتقل إليه) ش: من الدين الباطل فصار كالوثني الذي لا دين له فلا تؤكل ذبيحته."
(کتاب الذبائح، ج:11، ص:533، ط:دار الكتب العلمية)
بدائع الصنائع میں ہے:
"[فصل في شرائط جواز إقامة الحدود] وأما شرائط جواز إقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها، ومنها ما يخص البعض دون البعض، أما الذي يعم الحدود كلها فهو الإمامة: وهو أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام وهذا عندنا، وعند الشافعي هذا ليس بشرط."
(كتاب الحدود، فصل في شرائط إقامة الحدود، ج:7، ص:57، ط: دار الكتب العلمية)
کتاب الخراج لأبي يوسف میں ہے:
"قال أبو يوسف: وأيما رجل مسلم سب رسول الله صلى الله عليه وسلم أو كذبه أو عابه أو تنقصه؛ فقد كفر بالله وبانت منه زوجته؛ فإن تاب وإلا قتل. وكذلك المرأة؛ إلا أن أبا حنيفة قال: لا تقتل المرأة {وتجبرعلى الإسلام}."
(فصل في حکم المرتد عن الاسلام، ص:182، ط:دارالمعرفة بيروت)
النتف في الفتاوى میں ہے:
"واعلم أن الإنسان إذا كان مسلما فلا يحل قتله إلا عشرة أنفس: بعضهم بالاتفاق وبعضهم بالاختلاف، أحدهم المرتد فإن ارتد الرجل عن الإسلام استتابه الإمام فإن تاب وإلا قتل والأفضل أن يستتيبه ثلاثة أيام يكرر عليه التوبة فإن تاب قبل منه وإن أبى قتله بالاتفاق."
(كتاب المرتد والبغی، ساب الرسول، ج:2، ص:689، ط:مؤسسة الرسالة)
وفيه أيضا:
"والسابع من سب رسول الله الله صلى الله عليه وسلم فإنه مرتد وحكمه حكم المرتد ويفعل به ما يفعل بالمرتد"
(كتاب المرتد والبغی، ج:2، ص:694، ط:مؤسسة الرسالة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604100872
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن