بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کافر ملک میں جاکر ان کے خزانوں سے مال چوری کرکے مسلمانوں کو دینے کا حکم


سوال

کیا کفار ممالک کے خزانوں سے پیسے چوری کرکے مسلمانوں کو دے سکتے ہیں؟

جواب

جب کوئی مسلمان ویزہ لے کر کفار کے کسی ملک میں جاتا ہے تو وہ شرعی اصطلاح (زبان) میں ’’مستامن‘‘ کہلاتا ہے، مستامن کے لیے کفریہ ممالک میں جا کر ان کی جان، مال، عزت آبرو سے تعرض کرنا ناجائز اور حرام ہے، اگر کوئی مستامن کافر کا مال چوری چھپے لے کر مسلم ملک میں لے کر آجائے تو اگر اس کو لوٹانا ممکن ہو تو لوٹایا جائے ، بصورت دیگر  اس پر واجب ہے کہ اس کو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرے، اور اگر مال لے لیا لیکن ابھی تک وہ مسلم ملک میں نہیں آیا بلکہ اسی کافر ملک میں ہی رہائش پذیر ہے تو اس پر واجب ہے کہ جس سے وہ مال لیا ہے اس کو واپس کردے، لہٰذا کسی مسلمان کے لیےکفار ممالک کے خزانوں سے پیسے چوری کر کے مسلمانوں کا دینا شرعاً جائز نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"المستأمن أي الطالب للأمان (هو من يدخل دار غيره بأمان) مسلما كان أو حربيا (دخل مسلم دار الحرب بأمان حرم تعرضه لشيء) من دم ومال وفرج (منهم) إذ المسلمون عند شروطهم (فلو أخرج) إلينا (شيئا ملكه) ملكا (حراما) للغدر (فيتصدق به) وجوبا، قيد بالإخراج لأنه لو غصب منهم شيئا رده عليهم وجوبا.

(قوله إذ المسلمون عند شروطهم) لأنه ضمن بالاستئمان أن لا يتعرض لهم، والغدر حرام.

(قوله فلو أخرج إلخ) تفريغ لكون الملك حراما على حرمة التعرض كما أشار إليه بقوله للغدر.

(قوله فيتصدق به) لحصوله بسبب محظور وهو الغدر.

(قوله قيد بالإخراج لأنه لو غصب إلخ) يعني ولم يخرجه لأنه محترز القيد، وعبارته في الدر المنتقى قيد بالإخراج لأنه لو لم يخرجه وجب رده عليهم للغدر."

(كتاب الجهاد، باب المستامن، ج:4، ص:166، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405100347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں