بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کافر ملک میں کلب کی چوکیداری کرنا


سوال

میرا ایک دوست ہے، جو انگلینڈ میں ہے، وہ ایک کلب پر سیکیورٹی کرتا ہے جس میں لوگ سگریٹ نوشی کرتے ہیں اور شراب بھی پیتے ہیں، تو وہاں سیکیورٹی کرنا کیسا ہے؟ جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر   مذکورہ کلب کی غالب آمدنی حلال ہو، تو  اس میں ایسے شعبہ (مثلاً: سیکیورٹی وغیرہ) میں ملازمت کرنا جس میں براہِ راست حرام کام (مثلاً شراب پیش کرنا، یا اسے اٹھا کر منتقل کرنا وغیرہ) میں شمولیت نہ ہوتی ہو،   تو یہ ملازمت شرعاً جائز ہے،  اور اس کی آمدنی حرام نہیں ہے، البتہ اگر ایسی جگہ ملازمت مل جائے جس جگہ ایسی حرام اشیاء نہ ہوں تو  یہاں ملازمت ترک کرکے وہاں ملازمت کی کوشش کرنی چاہیے۔

اور اگر مذکورہ کلب کی غالب آمدنی حلال نہ  ہو  تو اس  میں کسی  قسم کی ملازمت کرنا بھی جائز نہیں ہوگی، اسی طرح حرام کام (مثلًا: شراب پیش کرنا یا اٹھانا کر منتقل کرنے وغیرہ) کے عوض تنخواہ ملتی ہو  تو بھی وہاں ملازمت جائز نہیں ہوگی۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإثْمِ وَالْعُدْوَانِ)يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصر على الباطل."

(سورة المائدۃ، 12/2، ط: دار الطیبة)

المحیط البرہانی میں ہے:

"وإذا استأجر رجل من أهل الذمة مسلماً يضرب لهم الناقوس فإنه لا يجوز لما ذكرنا."

(کتاب الإجارۃ، فصل فیمایجوز من الاجارۃ ومالایجوز، 482/7، ط: دارالکتب العلمیة)

الموسوعۃالفقهيۃالكويتيۃ میں ہے:

"اتفقوا على أنه لا يجوز للمسلم أن يؤجر نفسه للكافر لعمل لا يجوز له فعله كعصر الخمر ورعي الخنازير وما أشبه ذلك."

(حرف الخاء،خدمة الكافر للمسلم، 19 /45۔46، ط: دارالسلاسل۔بیروت)

فتاوٰی محمودیہ میں ہے:

"آپ کی اصل آمدنی تو جائز تھی،لیکن اب آپ کو اپنی جائز ملازمت میں کچھ ایسا کام بھی کرنا پڑتا ہےجس کی شرعًا اجازت نہیں، جائز کام کے مقابلہ میں اگر دوسرا کام کم ہے تو اپنی ملازمت ترک نہ کریں، اگر جائز کام کم ہو  اور دوسرا کام زائد ہوتب بھی فورًا ملازمت ترک نہ کریں، مبادا کہ پریشانی کاسامناہو جوقابلِ برداشت نہ ہو، البتہ دوسری جائز  کسبِ معاش تلاش کرتے رہیں،جب وہ میسر آجائےتب اس موجودہ ملازمت کو ترک کردیں، استغفار بہر حال کرتے رہیں۔"

(کتاب الاجارۃ، باب الاستئجار علی المعاصی، 120/17، ط: ادارہ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں