بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کافر(غیرمسلم ) کے حق میں سود حرام نہیں اورغیرمسلم کی وصیت مسلمان کے لیے جائز ہے


سوال

میرا نان مسلم پارسی فیملی سےتعلق ہے. میری والدہ پارسی ہیں۔ اور والد کا انتقال ہوچکاہے۔ میں نے اسلام قبول کیا ہے.میری والدہ جب آفس جاب کرتی تھیں اس ٹائم سے میرے لئے وقتا فوقتا کچھ پیسے جمع کرتی جاتی تھیں . وہ انکے پاس انکے پی ایس ایل بینک اکاؤنٹ مِیں رقم رکھے ہوئے کافی سال ہوگئےہِیں۔ پھر کچھ سال بعد سرٹیفیکیٹ لیے اسی اکاؤنٹ سے جس پر پروفٹ اتا تھا جو شاید انٹرسٹ ہوتاہے۔پھر کچھ سال بعد وہ سرٹیفیکیٹ بھی انکیش کروا کر دوبارہ پیسے اپنے بینک اکاؤنٹ میں شامل کئےاور پھر وہیں پر رہے۔ اب انکا دل بدل گیا ہے انھوں نے وصیت کی ہے کہ یہ پیسے جو میرے لئے جمع تھے وہ مجھے ہی دےدیئے جائیں۔ وہ نان مسلم ہیں اور بینک اکاؤنٹ انٹرسٹ پچھلے(۴۰) چالیس سالوں میں کافی تبدیل بھی ہوئےہیں۔ والدہ نہِیں جانتی کہ کتنی رقم اوریجنل ہے اور کتنا انٹرسٹ ہےاور اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ کافی عرصہ گزرچکاہےاور رقم بھی کئی بار ری انٹرسٹ ہوچکا ہے کوئی ریکارڈ بھی نہیں ہے۔ سوال یہ ہیکہ جو والدہ وصیت کر کے دینا چاہتی ہیں کیا میں یہ رقم لےسکتی ہوں۔ اس میں انٹرسٹ شامل ہےاسلئے میں بہت پریشان ہوں۔ میری تنخواہ اتنی نہیں کہ میں اپنا خرچہ پوراکرسکوں اور میری والدہ کےبعد میرا کوئی سرپرست نہیں ہےاورپارسی کمیونیٹی میں ہونےکی وجہ سے نکاح کرنا بھی ناممکن ہے۔ ابھی گھر کا خرچہ والدہ اٹھاتی ہیں۔ اب ہمِ کرائے کےگھر میں جارہے ہیں تواسکا کرایہ بھی مجھے ہی دینا ہوگا۔ برائے مہربانی میرے حالات کومدّ نظر رکھتے ہوئے صحیح رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ کفاراحکام میں فروعات کےمکلف نہیں ہوتے، اس لیے سودوغیرہ ان کے حق میں حرام نہیں نیز وصیت کرنے کے لیے مسلمان ہونا شرط نہیں ہے،لہذاصورت مسئولہ میں والدہ وصیت کرکے جورقم دیناچاہتی وہ رقم لیناجائزہے ۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"سوال (37) ہنودکے سودی روپیہ سے مسجد وعیدگاہ تیارکراناجائز ہے یانہیں ؟ اوراس میں نمازدرست ہے یانہیں ؟

الجواب: کفارکے حق میں سودحرام نہیں ہے کیونکہ وہ مکلف فروعات کے نہیں ہیں ، لہذاان سے چندہ لے کرمسجدوعیدگاہ بنانادرست ہے اورنمازاس میں درست ہے۔"

( فتاوی دارالعلوم دیوبند، سود، قماراوربیمہ کابیان، 14/ 481 ط:دارالاشاعت کراچی)

بدائع الصنائع ميں هے :

"وأما إسلام الموصي فليس بشرط لصحة وصيته، فتصح وصية الذمي بالمال للمسلم والذمي في الجملة؛ لأن الكفر لاينافي أهلية التمليك، ألا ترى: أنه يصح بيع الكافر، وهبته فكذا وصيته".

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ، كتاب الوصايا ، ‌الشرط الذي يرجع إلى الموصى له 7/ 335ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں