بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کافر کو سلام کرنے کا حکم


سوال

کافرکو سلام کرناکیساہے ؟

جواب

غیر مسلم کو ابتداءً سلام کے ان الفاظ سے سلام کرنا جائز نہیں ہے جو اہلِ اسلام اور اہلِ جنت کا تحیہ ہے، یعنی مخاطب کو متعین کرکے اسے سلامتی کی دعا دینا اور  "السلام علیکم"  کہنا۔ البتہ اگر غیر مسلم سلام میں پہل کرے تو اسے سلام کا جواب دے دینا چاہیے، لیکن جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ پورا نہیں کہا جائے ، بلکہ صرف ’’وعلیک‘‘ کہنے پر اکتفا  کیا جائے ۔ اور اگر غیر مسلم کو ابتداءً سلام کرنا پڑے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں اس کا حل بھی موجود ہے، نبی کریم ﷺ نے غیر مسلم حکم رانوں کو والا نامے ارسال فرمائے تھے ان کی ابتدا میں آں حضرت ﷺ نے ’’اَلسَّلَامُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْهُدیٰ‘‘ کے الفاظ تحریر فرمائے،  چناں چہ نبی کریم ﷺ  کی تعلیمات سے معلوم ہوا کہ عمومی اَحوال میں غیر مسلموں کو ابتداءً سلام نہ کیا جائے، ہاں اگر کسی موقع پر اس کی ضرورت ہو تو مخاطب کو متعین کیے بغیر عمومی الفاظ میں سلام کے الفاظ کہے جائیں جیسے ’’اَلسَّلَامُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْهُدیٰ‘‘، یعنی  اس پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔  لہٰذا ضرورت کے مواقع پر ابتداءً ان الفاظ میں سلام کرنے کی اجازت ہے۔ نیز جس مجمعے میں غیر مسلموں کے ساتھ مسلمان بھی موجود ہوں (خواہ ایک ہی مسلمان ہو) تو ان مسلمانوں کی نیت سے مجمعے کو سلام کرنا جائز ہے، جیساکہ حدیثِ پاک میں رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 412):

"فلايسلم ابتداءً على كافر لحديث: «لا تبدءوا اليهود ولا النصارى بالسلام، فإذا لقيتم أحدهم في طريق فاضطروه إلى أضيقه». رواه البخاري ... ولو سلم يهودي أو نصراني أو مجوسي على مسلم فلا بأس بالرد،  (و) لكن (لايزيد على قوله: وعليك)، كما في الخانية.

 (قوله: فلا بأس بالرد) المتبادر منه أن الأولى  عدمه ط لكن في التتارخانية: وإذا سلم أهل الذمة ينبغي أن يرد عليهم الجواب، وبه نأخذ.

(قوله: ولكن لايزيد على قوله: وعليك) لأنه قد يقول: السام عليكم أي الموت كما قال بعض اليهود للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال له: "وعليك "، فرد دعاءه عليه. وفي التتارخانية: قال محمد: يقول المسلم: وعليك ينوي بذلك السلام؛ لحديث مرفوع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إذا سلموا عليكم فردوا عليهم»".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 200057

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں