بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کافر کو مکہ یا مدینہ کی تصویر پوجنے کا مشورہ دینا اور تصویر دینا


سوال

ایک کافر ایک مولانا کے پاس جھاڑ پھونک کروانے گیا تو مولانا صاحب نے اس سے کہا ہے کہ مکہ یا مدینہ کی تصویر لے کر یا اگر تصویر نہ ملے تو مسجد میں یا مسجد کے دروازے پر جاکر اگربتی جلاکر پوجنا ہے ان شاءاللہ آپ کی مرادپوری ہوگی، سوال یہ کہ اب وہ کافر ہم سے مکہ کی یا مدینہ کی تصویر مانگ رہاہے؛ تاکہ وہ اپنی دوکان میں اس تصویرکو لگاکر پوجا کرتا رہے تو ایسا کرنا اس امید پر کہ ہوسکتاہے کہ اگر وہ شفا یاب ہوگیا تو متاثر ہو کر اسلام قبول کرلے، مکہ کی یا مدینہ کی تصویر دینا جائز ہے؟ ایک صاحب کا کہناہے کہ ویسے بھی کافرتوبتوں کی پوجاکرتے ہی ہیں، اسی میں اگرمدینہ کی تصویر کی پوجا کرے اور متاثر ہوجائے تو کیا حرج ہے جب کہ امید ہے کہ وہ اسلام قبول کرلے؟

جواب

مکہ، مدینہ اور مساجد مقدس جگہیں ہیں، ان کی تعظیم کرنا مطلوب ہے، لیکن  عبادت کی غرض سے  اللہ کے علاوہ کسی کی بھی تعظیم جائز نہیں ہے،  کافر کو  مکہ یا مدینہ کی تصویر کی یا مساجد کے گیٹ پر موم بتی جلاکر  پوجا کرنے کا مشورہ دینا جائز نہیں ہے، خواہ یہ مشورہ دینے والا کوئی بھی ہو۔

اور اگر آپ کو یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ اس تصویر کو پوجا کرنے کی غرض سے لے رہا ہے تو اس کو مکہ، مدینہ کی تصویر دینا بھی  مکروہ ہے؛ اس لیے کہ ناجائز کام پر تعاون ہے۔

باقی یہ کہنا کہ کافر تو ویسے بھی پوجا کرتے ہیں تو  اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کافر اپنے طور پر پوجا کررہا ہے تو وہ اس کا اپنا فعل ہے، لیکن ایک بالغ مکلف مسلمان کا اس کو ناجائز کام کا مشورہ دینا یا اس میں اعانت کرنا یہ مسلمان کا فعل ہے جو گناہ پر تعاون کی وجہ سے ناجائز اور گناہ ہے۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ نماز کے دوران مسلمانوں کے بیت اللہ کی طرف رُخ کرنے اور کعبۃ اللہ کو قبلہ مقرر کرنے کی غرض اس عمارت کی پوجا نہیں ہے، کہ کوئی شخص اسے عمارت کی تعظیم اور ظاہری سجدہ سمجھے، بلکہ بیت اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر بھی مسلمان کی نیت اللہ تعالیٰ کو ہی سجدہ کرنا ہوتاہے، اس کے سجدے میں بیت اللہ کو پوجنے کا ادنیٰ احتمال بھی نہیں ہوتا۔ اور در حقیقت کوئی بھی جہت یا رُخ اپنی ذات میں مقصود نہیں ہے، مشرق ہو یا مغرب سب جہات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، مسلمان مشرق کا رہنے والا ہو تو نماز میں اس کا رُخ مغرب کی طرف ہوتاہے، مغرب کا رہنے والا ہو تو اس کا رُخ نماز میں مشرق کی طرف ہوتاہے، الغرض مشرق یا مغرب یا کوئی عمارت مقصود نہیں ہے، اصل اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے جو جہات اور رُخ سے پاک ہے، تحویلِ قبلہ کے حکم کا بنیادی مقصد  مسلمانوں کو توحید اور کامل اتباع کی تعلیم دینا تھا کہ مسلمان کا مقصد کوئی عمارت یا رُخ نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ کے حکم کے تابع ہے، اور وہ جہاں حکم دے گا، مسلمان اسی طرف رخ کرے گا، اور جس رُخ پر بھی وہ نماز ادا کرے وہیں وہ اللہ تعالیٰ کو پائے گا۔

ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾ [المائدة: 2]

ترجمہ: اور گناہ  اور زیادتی میں  ایک  دوسرے  کی اعانت مت کرو، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو، بلاشبہ  اللہ تعالیٰ  سخت سزا دینے والے ہیں۔ (از بیان القرآن)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 391):

(بخلاف بيع أمرد ممن يلوط به وبيع سلاح من أهل الفتنة) لأن المعصية تقوم بعينه ثم الكراهة في مسألة الأمرد مصرح بها في بيوع الخانية وغيرها واعتمده المصنف على خلاف ما في الزيلعي والعيني وإن أقره المصنف في باب البغاة. قلت: وقدمنا ثمة معزيا للنهر أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريما وإلا فتنزيها. فليحفظ توفيقا.

(قوله: على خلاف ما في الزيلعي والعيني) ومثله في النهاية والكفاية عن إجارات الإمام السرخسي (قوله: معزيًا للنهر) قال فيه من باب البغاة: وعلم من هذا أنه لايكره بيع ما لم تقم المعصية به كبيع الجارية المغنية والكبش النطوح والحمامة الطيارة والعصير والخشب ممن يتخذ منه المعازف، وأما في بيوع الخانية من أنه يكره بيع الأمرد من فاسق يعلم أنه يعصي به مشكل.

والذي جزم به الزيلعي في الحظر والإباحة أنه لا يكره بيع جارية ممن يأتيها في دبرها أو بيع غلام من لوطي، وهو الموافق لما مر وعندي أن ما في الخانية محمول على كراهة التنزيه، وهو الذي تطمئن إليه النفوس إذ لا يشكل أنه وإن لم يكن معينا أنه متسبب في الإعانة ولم أر من تعرض لهذا اهـ وفي حاشية الشلبي على المحيط اشترى المسلم الفاسق عبدًا أمرد وكان ممن يعتاد إتيان الأمرد يجبر على بيعه (قوله: فليحفظ توفيقًا) بأن يحمل ما في الخانية من إثبات الكراهة على التنزيه، وما في الزيلعي وغيره من نفيها على التحريم، فلا مخالفة وأقول هذا التوفيق غير ظاهر لأنه قدم أن الأمرد مما تقوم المعصية بعينه وعلى مقتضى ما ذكره هنا يتعين أن تكون الكراهة فيه للتحريم فلايصح حمل كلام الزيلعي وغيره على التنزيه، وإنما مبنى كلام الزيلعي وغيره على أن الأمرد ليس مما تقوم المعصية بعينه كما يظهر من عبارته قريبا عند قوله وجاز إجارة بيت".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201201410

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں