کسی کافر کو کافر کہہ کر بولنا یا بلوانا یا یہ بولنا کہ وہ کافر جا رہا ہے، بیشک وہ کافر ہے، درست ہے؟
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے اپنے متبعین کو حسن اخلاق کی تعلیم دی ہے ،جناب نبی کریم ﷺ نے مؤمن کی صفات میں یہ بات ارشاد فرمائی ہےکہ : مؤمن لعن طعن کرنے والا نہیں ہوتا ،نیز مسلمانوں کے اچھے اور عمدہ اخلاق یہ دین کی دعوت کی ایک مؤثر صورت ہے ، مسلمانوں کے اچھے اخلاق سے متاثر ہو غیر مسلموں کے مسلمان ہونے کے ان گنت واقعات ہیں ،لہذا صورت مسئولہ میں اگرچہ کافر کو کافر کہنا منع نہیں ہے، لیکن کسی کافر کو بطور طعنہ کافر کہہ کر نہیں بلانا چاہیے ،یہ عمل اخلاقیات کے خلا ف ہے ،نیز یہ اس کے اسلام قبول کرنے میں رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے ۔
ہاں! اگر کسی دینی مصلحت کی خاطر اس کے کفر کا اظہار ضروری ہو تو شرعاً اس کی اجازت ہے ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 70)
"(قوله: يا لص) بكسر اللام وتضم در منتقى (قوله: إلا أن يكون لصا) الأولى أن يقول إلا أن يكون كذلك لئلا يوهم اختصاصه باللص إذ لا فرق بين الكل كما بحثه في اليعقوبية وقال إنه لا تصريح به. اهـ. قلت: ويدل له قوله في الفتح: وقيد الناطفي بما إذا قاله لرجل صالح، أما لو قال لفاسق أو للص يا لص أو لفاجر يا فاجر لا شيء عليه والتعليل يفيد ذلك، وهو قولنا إنه آذاه بما ألحق به من الشين؛ فإن ذلك إنما يكون فيمن لم يعلم اتصافه بهذه؛ أما من علم فإن الشين قد ألحقه بنفسه قبل قول القائل اهـ كلام الفتح.
قلت: ويظهر من هذا وكذا من قول المصنف السابق إلا أن يكون معلوم الفسق أن المراد المجاهر المشتهر بذلك فلا يعزر شاتمه بذلك كما لو اغتابه فيه بخلاف غيره؛ لأن فيه إيذاءه بما لم يعلم اتصافه به، وتقدم أنه يعزر بالغيبة وهي لا تكون إلا بوصفه بما فيه وإلا كانت بهتانا، فإذا عزر بوصفه بما فيه مما لم يتجاهر به ففي شتمه به في وجهه بالأولى؛ لأنه أشد في الإيذاء والإهانة هذا ما ظهر لي فتأمله."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201989
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن