صوبائی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے لیے وقف شدہ قبرستان کے کچھ حصے میں غیر مسلموں نے تقریباً چالیس سال پہلے اپنے مردے دفن کیے ہیں، اب وہ حصہ خالی پڑا ہوا ہے، اور اس مقام کی کچھ جگہوں میں کھدائی بھی کی گئی ہے، تاہم کوئی انسانی ہڈی نہیں نکلی، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس حصے کی مٹی کو کھدائی کر کے نکال کر نئی مٹی ڈالنا ضروری ہے؟یا اس کے بغیر بھی مسلمان میت کو وہاں دفن کرنا جائز ہے؟
قبر بناتے وقت وہ زائد اور بچی ہوئی اینٹیں جو قبرستان میں پڑی ہوئی ہیں اسے جنازہ گاہ کے لیے فرش بنانے میں استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
فقہاء کرام نے صراحت فرمائی ہے کہ اگر کسی قبر میں پرانی میت بوسیدہ اور مٹی ہو جائے تو اس میں نئی میت کو دفن کرنا جائز ہے، کافر کی قبر میں اگر مسلمان کو دفن کرنا ہو تو نئی مٹی ڈالنا ضروری نہیں۔
قبر بناتے ہوئے جو اینٹیں بچ جاتی ہیں عام طور پر مالک اس کو قصداً چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور جو چیز اس طرح مالک کی طرف سے چھوڑ دی گئی ہو یا پھینک دی گئی ہو اس کی حیثیت مباح چیز کی ہوگی یعنی ان اینٹوں کو جو بھی پہلے اٹھالے وہی ان کا مالک شمار ہوگا اور ان اینٹوں میں اسے مالکانہ تصرفات کا حق حاصل ہوگا، لہذا جہاں چاہے اس کو استعمال کیا جا سکتاہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ ...
قال في الأحكام: لا بأس بأن يقبر المسلم في مقابر المشركين إذا لم يبق من علاماتهم شيء كما في خزانة الفتاوى، وإن بقي من عظامهم شيء تنبش وترفع الآثار وتتخذ مسجدا، لما روي «أن مسجد النبي - صلى الله عليه وسلم - كان قبل مقبرة المشركين فنبشت» كذا في الواقعات. اهـ."
(کتاب الصلاۃ ، باب الجنازۃ ، مطلب في دفن الميت ، جلد : 2 ، صفحه : 233 ، طبع : سعيد)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"ثم ما يجده الرجل نوعان: نوع يعلم أن صاحبه لا يطلبه كالنوى في مواضع متفرقة وقشور الرمان في مواضع متفرقة، وفي هذا الوجه له أن يأخذها وينتفع بها إلا أن صاحبها إذا وجدها في يده بعد ما جمعها فله أن يأخذها ولا تصير ملكا للآخذ، هكذا ذكر شيخ الإسلام خواهر زاده وشمس الأئمة السرخسي - رحمهما الله تعالى - في شرح كتاب اللقطة، وهكذا ذكر القدوري في شرحه. ونوع آخر يعلم أن صاحبه يطلبه كالذهب والفضة وسائر العروض وأشباهها وفي هذا الوجه له أن يأخذها ويحفظها ويعرفها حتى يوصلها إلى صاحبها."
(کتاب اللقطة ، جلد : 2 ، صفحه : 289 ، طبع: دار الفکر)
ملتقى الأبحر میں ہے:
"و للملتقط أن ينتفع باللقطة بعد التعريف لو فقيرًا وإن غنيًّا تصدق بها و لو على أبويه أو ولده أو زوجته لو فقراء و إن كانت حقيرةً كالنوى و قشور الرمان و السنبل بعد الحصاد ينتفع بها بدون تعريف و للمالك أخذها و لايجب دفع اللقطة إلى مدعيها إلا ببينة و يحل إن بين علامتها من غير جبر."
(كتاب اللقطة ، صفحه : 529/ 530 ، طبع : دار الکتب العلمیة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144512100219
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن