بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کافر کے لیے ہدایت کی دعا کی جائے یا تباہی کی؟


سوال

کیا کافر یا کافر ملک کے لیے تباہی کی دعا  کرنی چاہیے یا ہدایت کی دعا؟

جواب

کافر یا کافر ملک کے لیے اولاً ہدایت کی دعا کرنی چاہیے، لیکن اگر کافر یا کافر ملک ظالم ہو تو پھر ان کے خلاف بد دعا کرنے کی بھی اجازت ہے۔

قرآنِ کریم میں اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:

"{لا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوٓءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيعًا عَلِيمًا} [النساء: 148]"

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"قوله عز وجل: {لا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوٓءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ} قال ابن عباس وقتادة: إلا أن يدعو على ظالمه."

(ج:2، ص:365، ط:دار الكتب العلمية)

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"قال الله تعالى: {لا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوٓءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ}  قال القرطبي: الذي يقتضيه ظاهر الآية أن للمظلوم أن ينتصر من ظالمه ولكن مع اقتصاد إن كان الظالم مؤمنا كما قال الحسن، وإن كان كافرا، فأرسل لسانك وادع بما شئت من الهلكة وبكل دعاء كما فعل النبي صلى الله عليه وسلم حيث قال: اللهم اشدد وطأتك على مضر. اللهم اجعلها عليهم سنين كسني يوسف. وقال: اللهم ‌عليك ‌بفلان وفلان سماهم. وإن كان مجاهرا بالظلم، دعا عليه جهرا ولم يكن له عرض محترم ولا بدن محترم ولا مال محترم."

(ج:20، ص:267، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

عمدۃ القاری میں ہے:

"فوجه البابين أعني: باب الدعاء على المشركين وباب الدعاء للمشركين باعتبارين، ففي الأول: مطلق الدعاء عليهم لأجل تماديهم على كفرهم وإيذائهم المسلمين، وفي الثاني: الدعاء بالهداية ليتألفوا بالإسلام."

(ج:23، ص:19، كتاب الأدب، باب الدعاء للمشركين، ط:دار إحياء التراث العربي)

"دونوں باب (یعنی مشرکین کے لیے دعا کرنے اور ان کے خلاف بد دعا کرنے ) کی یہ ہے کہ دونوں الگ الگ اعتبار سے ہیں، پہلے باب میں ان پر بد دعا کا ذکر اس لیے ہے کہ وہ کفر میں آگے بڑھے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو اذیت دیتے ہیں، اور دوسرے باب میں ان کے لیے ہدایت کی دعا کا ذکر اس لیے ہے تاکہ وہ اسلام کی طرف مائل ہوجائیں۔"

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307102447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں