بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کفارہ یمین میں یسار کی حد


سوال

1:میری آپ سے عرض یہ تھی کہ قسم کے کفار ے میں دس مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے جو کہ تقریبا ساڑھے سترہ کلو گندم کی قیمت بنتی ہے اب استفسار یہ تھا کہ میں ایک طالب علم ہوں اور اگر میں اس رقم کو ادا کرنا چاہوں تو پیسے جمع کر کے میں ادا تو کرسکتا ہوں لیکن اس کے بعد میرے پاس کوئی جیب خرچ نہیں بچتا تو میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ جس طرح زکٰوۃ کا ایک نصاب ہے ،اس نصاب کی موجودگی میں ہی زکٰوۃ لازم ہوتی ہے،تو کیا اسی طرح قسم کے کفارے کےلیے بھی کوئی مقدار متعین ہے جو انسان کی ملکیت میں ہو تو اس پر کفارہ لازم کیا جائے، کیوں  کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ کفارے کی اگر سکت نہ ہو تو تین روزے رکھے تو کفارہ تو تقریبا ہر شخص ہی ادا کر سکتا ہے خواہ وہ آسانی سے ہو یا پیٹ پر پتھر باندھ کر ہو۔

2:دوسرا میں نے آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ اگر کوئی شخص ڈالر کو روپے کے بدلے میں فروخت کرتا ہے ، یعنی ڈالر ادھار دے کر بعد میں روپوں کی شکل میں اپنا قرض وصول کرتا ہے ،  تو جامعہ کی طرف سے فتوے میں اسے (ربوٰ نسیئہ )کی وجہ سے حرام قرار دیاگیا کہ یہ بیع صرف ہے اور اس کےاندر مجلس عقد میں قبضہ ضروری ہے، اب میرا سوال یہ کہ اگر اس طرح کا معاملہ جائز نہیں تو پھر تو پیسوں کو پیسوں کے بدلے میں بیچنا بھی نا جائز ہونا چاہیے یعنی ادھار دینا ناجائز ہوگا ،حالانکہ ادھار اور قرض کا معاملہ تو درست ہے۔

جواب

1.قسم کے کفارہ میں قدرت کا معنی یہ ہے،کہ کفارے کی  ادائیگی کے بعد اتنی کچھ   مقدار باقی رہ جائے جو ایک دن کے لیے کافی ہو، البتہ کفارہ میں یہ رعایت بھی ہے کہ   جب جب وسعت ہو ادا کرتا رہے،ایک دن میں ادائیگی لازم نہیں ہے۔

"البحر الرائق شرح كنز الدقائق"میں ہے:

"وأشار بالعجز إلى أنه لو كان عنده واحد من الأصناف الثلاثة لا يجوز له الصوم، وإن كان محتاجا إليه ففي الخانية ولا يجوز التكفير بالصوم إلا لمن عجز عما سوى الصوم فلا يجوز لمن يملك ما هو منصوص عليه في الكفارة، أو يملك بدله فوق الكفاف، والكفاف منزل يسكنه وثوب يلبسه ويستر عورته وقوت يومه ومن الناس من قال قوت شهر."

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق لزين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (ت ٩٧٠ هـ)، كتاب الايمان،  ج:4، ص:315، ط: دار الكتاب الإسلامي) 

"الفتاوى العالمگيرية المعروفة بالفتاوى الهندية" میں ہے:

"فإن لم يقدر على أحد هذه الأشياء الثلاثة صام ثلاثة أيام متتابعات وهذه كفارة ‌المعسر والأولى كفارة الموسر وحد اليسار في ‌كفارة ‌اليمين أن يكون له فضل على كفافه مقدار ما يكفر عن يمينه وهذا إذا لم يكن في ملكه عين المنصوص عليه أما إذا كان في ملكه عين المنصوص عليه وهو أن يكون في ملكه عبد أو كسوة أو طعام عشرة لا يجوز أن يصوم  سواء كان عليه دين أو لم يكن وأما إذا لم يكن في ملكه عين المنصوص عليه فحينئذ يعتبر اليسار والإعسار كذا في السراج الوهاج.ثم اعتبار الفقر والغنى عندنا عند إرادة التكفير فلو كان موسرا عند الحنث ثم أعسر عند التكفير أجزأه الصوم عندنا وبعكسه لا يجزئه كذا في فتح القدير.والكفاف منزل يسكنه وثياب يلبسها ويستر عورته وقوت يومه كذا في فتاوى قاضي خان."

(الفتاوى العالمكيرية المعروفة بالفتاوى الهندية،كتاب الايمان، الفصل الثاني في الكفارة، ج:2، ش:51،  ط: دار الفكر بيروت وغيرها)

"الجوهرة النيرة" میں ہے:

"(فإن لم يقدر على أحد هذه الأشياء الثلاثة صام ثلاثة أيام متتابعات) هذه كفارة ‌المعسر والأولى كفارة الموسر وحد اليسار في ‌كفارة ‌اليمين أن يكون له فضل عن كفاية مقدار ما يكفر عن يمينه وهذا إذا لم يكن في ملكه عين المنصوص عليه أما إذا كان في ملكه ذلك لا يجزيه الصوم وهو أن يكون في ملكه عبد أو كسوة أو طعام عشرة مساكين سواء كان عليه دين أم لا وأما إذا لم يكن ذلك في ملكه حينئذ يعتبر اليسار والإعسار.قال في شرحه: إذا ملك عبدا وهو محتاج إليه لم يجزه الصوم ووجب عليه عتقه لأنه واجد للرقبة فلا يجزيه الصوم والمعتبر عندنا في اليسار والإعسار بوقت الأداء لا بوقت الوجوب حتى لو كان موسرا وقت الوجوب ثم أعسر جاز له الصوم ولو كان معسرا وقت الوجوب ثم أيسر لا يجوز له الصوم."

(الجوهرة النيرة لأبي بكر بن علي بن محمد الحدادي العبادي الزَّبِيدِيّ اليمني الحنفي (ت ٨٠٠ هـ)، كتاب الايمان، باب كفارة اليمين، ج:2، ص:196، ط: المطبعة الخيرية)

" فتح باب العناية بشرح النُّقاية" میں ہے:

"الكفارات ‌كلها ‌واجبة ‌على ‌التراخي، فلا يأثم بالتأخير عن وقت الإمكان، ويكون مؤديا لا قاضيا في أي وقت (أدى، وإنما يتضيق عليه الوجوب في آخر عمره في وقت) يغلب على ظنه أنه لو لم يؤده لفات، فإنه إن لم يؤد فيه حتى مات أثم، ويجب عليه الوصية بالأداء، ولو لم يوص لم يجب في التركة ولا على الورثة، ولو تبرع عنه الورثة جاز، ولا يصومون عنه. والأفضل تعجيل الكفارات والمبادرة إلى الخيرات، فإن في التأخير آفات."

( فتح باب العناية بشرح «النُّقاية» لنور الدين أبو الحسن علي بن سلطان محمد الهروي القاري (٩٣٠ - ١٠١٤ هـ)، ج:1، ص:288، ط: دار الأرقم بن أبي الأرقم - بيروت)

2. واضح رہے کہ بیع ایک الگ عقد ہے اور قر ض ایک الگ  معاملہ اور عقد ہے، بیعِ  صرف  (اثمان کی بیع) میں مجلس میں فریقین کے لیے  قبضہ ضروری ہے، ورنہ ربا (سود)  شمار ہوگا،اور  کسی کو قرض دینا یہ الگ عقد  ومعاملہ ہے، یہ   بیع نہیں ہے، لہذا عدمِ  جواز بیع کی صورت میں ہے، قرض دینے  کی صورت میں نہیں ہے، البتہ اگر قرض میں بھی واپسی کی صورت میں  زیادتی کی شرط لگا ئی گئی تو یہ معاملہ بھی  سود  کی وجہ سے حرام ہوگا۔

"البحر الرائق شرح كنز الدقائق" میں ہے:

"(هو بيع بعض الأثمان ببعض) كالذهب والفضة إذا بيع أحدهما بالآخر أي بيع ما من جنس الأثمان بعضها ببعض وإنما فسرناه به ولم نبقه على ظاهره ليدخل فيه بيع المصوغ بالمصوغ أو بالنقد فإن المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا ولهذا يتعين في العقد ومع ذلك بيعه صرف ...شرائطه فأربعة، الأول قبض البدلين قبل الافتراق بالأبدان.(قوله: فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض) أي النقدان بأن بيع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوي وزنا ومن قبض البدلين قبل الافتراق."

(باب الصرف، ج:6، ص:209،  ط: دارالكتب الاسلامى)

فتاوی شامی میں ہے:

"(القرض) هوعقد مخصوص يرد على دفع مثلي ليرد مثله...(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا..."(وكان عليه ‌مثل ‌ما ‌قبض) فان قضاه اجود بلا شرط جاز و يجبر الدائن على قبول الاجود و قيل لا هذا هو الصحيح."

(‌‌‌‌باب المرابحة والتولية، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج:5، ص:161، 165،166ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508100540

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں