کچرے سے اٹھائے ہوئے سامان کو بیچ کر جو پیسے آتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ حلال ہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں ایسا سامان جسے عموماً لوگ کچرے میں پھینک دیتے ہیں اسے کچرے سے اٹھاکر بیچنا جائز ہے اور اس کے پیسے حلال ہیں اوراگر کچرے میں کوئی ایسا قیمتی سامان ملے جو عموماً لوگ کچرے میں نہیں پھینکتےتواس کا حکم یہ ہے کہ اسے مالک تک پہنچانے کے لیے اس کی حتی الوسع تشہیر کرنا لازم ہے یہاں تک کہ غالب گمان ہوجائے کہ اب یہ چیز مالک تک نہیں پہنچ سکتا۔ اگر تشہیر کے باوجود مالک کا پتا نہ لگے تو اس کو محفوظ رکھے، تاکہ مالک کے آجانے کی صورت میں مشکل پیش نہ آئے۔ اور (حتی الوسع تشہیر کے ذرائع استعمال کرنے کے باوجود اگر مالک ملنے سے مایوسی ہوجائے تو) یہ صورت بھی جائز ہے کہ مالک ہی کی طرف سے مذکورہ چیز کسی فقیر کو صدقہ کردے، اور اگر خود زکات کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے۔البتہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد مالک آجاتاہے تواسے اپنی چیز کے مطالبے کا اختیار حاصل ہوگا،اسے اداکرے یا معاف کرالے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قال أصحابنا: لو وضع ماله في طريق ليكون ملكا للرافع جاز."
(كتاب الهبة، 688/5، ط:سعيد)
فتاوی خانیہ میں ہے:
"رجل رفع عيناً ساقطاً فزعم أن الملقي قال : من أخذ فهو له وصاحب العين ينكر ذلك القول قول الناطفي رحمه الله تعالى : إن أقام الرافع بينة على ما ادعى أو حلف صاحب العين، فأبى أن يحلف فإن العين يكون للرافع.
ولو أن الرافع لم يسمع ذلك من صاحب العين لكن أخبر بما قال صاحب العين عند الإلقاء، وسعه أن يأخذه بالخبر."
(كتاب الهبة، فصل فيما يكون هبة من الالفاظ و ما لا يكون، 131/3، ط:دار الکتب العلمیة)
بدائع الصنائع میں ہے:
"للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء."
(كتاب الدعوى، دعوى النسب، فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل، 264/6، ط:دارالكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ويعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح، كذا في مجمع البحرين ولقطة الحل والحرم سواء، كذا في خزانة المفتين ، ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لايرجع على الفقير و إن ضمن الفقير لايرجع على الملتقط و إن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه ، كذا في شرح مجمع البحرين."
(كتاب اللقطة، 289/2، ط:دارالفکر- بیروت)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604101031
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن