بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبروں پر مزار بنانے کا حکم


سوال

علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: 

وفي الأحكام عن جامع الفتاوى: وقيل لا يكره البناء إذا كان الميت من المشايخ والعلماء والسادات اهـ

ترجمہ: اوراحکام میں جامع الفتاوی کے حوالے سے ہے :اورکہاگیاہے کہ اگرمیّت مشائخ اورعلماء اورساداتِ کرام میں سے ہو تواس کی قبر پر عمارت بنانامکروہ نہیں ہے۔

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ،ج 2،ص237،دار الفکر بیروت)

اس عبارت کے حوالے سے علماء کرام کیا فرماتے ہیں کیا علامہ شامی کے نزدیک قبروں پر مزارات بنانا ٹھیک ہے۔

جواب

واضح  رہے کہ احادیث مبارکہ میں قبروں کو پختہ بنانے  اور قبروں  کے اوپرعمارت بنانے سے منع فرمایا گیا ہے ، اس لیے کسی بھی مسلمان کی قبر کو پختہ بنانا یا اس  پر عمارت قائم کرکے  مزار بنانا  دونوں کام جائز نہیں ہیں ،اور  اس کے لیے علامہ شامی رحمۃ اللہ کی  سوال میں مذکورہ عبارت کو جواز کے طور پر پیش کرنا  بھی درست نہیں ہے ، کیوں کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ کی   اسی بحث میں آگےذکر کردہ عبارت ( وأما البناء عليه فلم أر من اختار جوازه  ) سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ صاحب رحمۃ اللہ کے ہاں بھی قبروں پرعمارت قائم کرکے اس کو  مزار بنانا جائز نہیں ہے، باقی جو آج کل  کچی ایٹوں کے ذریعے قبر کو  کوہان نما  بنایا جاتا ہے اس کی فقہاء کرام نے اجازت دی ہے، اور امر  مستحسن قرار دیا ہے    ۔

نیز مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک  ملاحظہ فرمائیں:

بزرگوں اور اولیاءِ کرام کے مزارات بنانے کا حکم

فتاوی شامی میں ہے :

"ولا يرفع عليه بناء

قوله ولا يرفع عليه بناء) أي يحرم لو للزينة، ويكره لو للإحكام بعد الدفن، وأما قبله فليس بقبر إمداد. وفي الأحكام عن جامع الفتاوى: وقيل ‌لا ‌يكره ‌البناء ‌إذا ‌كان ‌الميت ‌من ‌المشايخ ‌والعلماء والسادات اهـقلت: لكن هذا في غير المقابر المسبلة كما لا يخفى ..... وأما البناء عليه فلم أر من اختار جوازه ...... وعن أبي حنيفة: يكره أن يبني عليه بناء من بيت أو قبة أو نحو ذلك، لما روى جابر " نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن تجصيص القبور، وأن يكتب عليها، وأن يبنى عليها" رواه مسلم وغيره نعم في الإمداد عن الكبرى: واليوم اعتادوا التسنيم باللبن صيانة للقبر عن النبش، ورأوا ذلك حسنا. وقال - صلى الله عليه وسلم - "ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن" . اهـ".

(كتاب الصلاة ، ‌‌باب صلاة الجنازة ج : 2 ص : 237 ط : سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101506

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں