بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کبوتر پالنے کا حکم


سوال

 کیا کبوتر پالنا جائز ہے،  کیا ان سے گھر منحوس ہو جاتا ہے؟

جواب

 کسی جائز غرض مثلاً تجارت، کھانے یا انسیت حاصل کرنے  وغیرہ کے لیے کبوتر پالنا جائز ہے، بشرط یہ کہ ان کے دانہ، پانی کا بروقت انتظام کیا جائے اور ان کو بھوکا پیاسا نہ رکھا جائے۔ ان سے گھر منحوس نہیں ہوتے۔

ہاں محض کبوتر بازی کے مشغلہ کی غرض سے کبوتر پالنا اور  ہر وقت ان ہی کے ساتھ شوقیہ مصروف رہنا،   اور کبوتر بازی کرنا اور گھر کی چھت پر چڑھ کر کبوتر اڑانا  جس سے دوسروں کے گھروں میں نظر پڑتی ہو ، یہ درست نہیں ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے۔  

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 401):

" (قوله: وأما للاستئناس فمباح) قال في المجتبى رامزًا: لا بأس بحبس الطيور والدجاج في بيته، ولكن يعلفها وهو خير من إرسالها في السكك اهـ وفي القنية رامزًا: حبس بلبلًا في القفص وعلفها لايجوز اهـ.
أقول: لكن في فتاوى العلامة قارئ الهداية: سئل هل يجوز حبس الطيور المفردة؟ وهل يجوز عتقها؟ وهل في ذلك ثواب؟ وهل يجوز قتل الوطاويط؛ لتلويثها حصر المسجد بخرئها الفاحش؟ فأجاب: يجوز حبسها للاستئناس بها، وأما إعتاقها فليس فيه ثواب، وقتل المؤذي منها ومن الدواب جائز اهـ.قلت: ولعل الكراهة في الحبس في القفص؛ لأنه سجن وتعذيب دون غيره، كما يؤخذ من مجموع ما ذكرنا، وبه يحصل التوفيق، فتأمل."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201250

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں