بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کبوتر کی بیٹ پاک ہے، کبوتر کی بیٹ ٹنکی میں گرجاۓ تو کیا حکم ہے؟


سوال

گھر کی  چھت کی ٹنکی کھلی ہوئی تھی ،اس میں کبوتر نے بیٹ کر دی، تو اب اس پانی سے وضو یا غسل کا  کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کبوتر کی بیٹ ناپاک نہیں ہے، لہذا صورت مسئولہ میں کبوتر کی بیٹ پانی کی ٹنکی میں گر جانے کے سبب ٹنکی کا پانی ناپاک نہیں ہوا، بلکہ بدستور پاک ہے،لہذا اس ٹنکی کے پانی سے کیے جانے والے وضو اور غسل درست ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وذرق ما يؤكل ‌لحمه ‌من ‌الطير ‌طاهر عندنا مثل الحمام والعصافير. كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الطهارة،الباب السابع في النجاسة وأحكامها،الفصل الثاني في الأعيان النجسة،46/1،ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا نزح) في بول فأرة في الأصح فيض، ولا (بخرء حمام وعصفور) وكذا سباع طير في الأصح لتعذر صونها عنه۔۔۔ قال ابن عابدین: (قوله حمام وعصفور) أي ونحوهما مما يؤكل لحمه من الطيور سوى الدجاج والإوز (قوله في الأصح) راجع إلى قوله وكذا سباع طير أي مما لا يؤكل لحمه من الطيور، وهذا ما صححه في المبسوط وصحح قاضي خان في جامعه النجاسة بحر (قوله لتعذر صونها) أي البئر عنه: أي عن الخرء المذكور.

ومفاد التعليل أنه نجس معفو عنه للضرورة، وفيه اختلاف المشايخ، لكن الذي اختاره في الهداية وكثير من الكتب أنه ليس بنجس عندنا للإجماع العملي على اقتناء الحمامات في المسجد الحرام من غير نكير مع العلم بما يكون منها كما في البحر. قال: ولم يذكروا لهذا الخلاف فائدة مع اتفاقهم على سقوط حكم النجاسة. اهـ. قلت: يمكن أن تظهر في التعاليق، وكذا إذا رماه في الماء قصدا فإنه لا ضرورة في ذلك لكونه بفعله. وما في النهر من أنها يمكن أن تظهر فيما لو وجدها على ثوب وعنده ما هو خال عنها لا تجوز الصلاة فيه على العفو لانتفاء الضرورة وتجوز على الطهارة. اهـ. قال ط: فيه نظر، إذ مقتضاه عدم جواز التطهر فيه بهذا الماء حيث وجد غيره۔۔۔ولا فرق بين أن يكون للبئر حاجز كالمدن أو لا كالفلوات هو الصحيح."

(كتاب الطهارة،‌‌باب المياه،‌‌فصل في البئر،220/1، ط: سعيد)

فتوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

’’سوال: کبوتر کا گو نجس ہے یا نہیں؟اور مسجد میں جو کبوتر رہتے ہیں، ان کو فروخت کرکے ان کی قیمت اسی مسجد میں صرف کرنا درست ہے یا نہیں؟

جواب:کبوتر کی بیٹ پلید نہیں ہے،اور مسجد کے کبوتروں کو پکڑ کر فروخت کرکے  مسجد میں اس قیمت کو صرف کرنا درست ہے۔‘‘

(کتاب الطہارت،ص:238/239، ج: 1، ط: دارالاشاعت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501100565

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں