بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کبوتر بازی کا حکم / کبوتر باز کی گواہی کا حکم


سوال

1۔ کبوتر پالنے والے کی گواہی کا کیا حکم ہے؟

2۔ کیا کبوتر باز کی گواہی قبول ہوگی یا نہیں؟

جواب

1۔ واضح  رہے کہ کبوتر بازی انسان میں غفلت پیدا کرتی ہے، اور اسے نماز و دیگر احکام خدا وندی سے غافل کردیتی ہے، جس کی وجہ سے شرعا کبوتر بازی نہایت  نا پسندیدہ مشغلہ ہے، حضرت  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم نے ایک شخص کو  کبوتری کا (اپنی نظروں سے) پیچھا کرتے دیکھا (یعنی وہ کبوتر  اڑا رہا تھا) تو آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم نے فرمایا: "ایک شیطان ایک شیطانہ کا پیچھا کر رہا ہے۔" یعنی دونوں ہی  شیطان ہیں؛  کبوتر اڑانے والا  تو اس لیے شیطان ہے کہ وہ اللہ سے غافل اور بے پرواہ ہے، اور کبوتر اس لیے شیطان ہے کہ وہ اڑانے والے کی غفلت کا سبب بنا ہے۔ البتہ تجارت، انڈوں کی حصول  کے لیے  گھر میں کبوتر  رکھنا  جائز ہے۔

2۔ کبوتر بازی اگر جوئے کے ساتھ ہو، تو ایسا کبوتر باز شرعا مردود الشهادة    ہوگا، یعنی ایسے شخص کی گواہی شرعا معتبر نہیں ہوگی۔

سنن أبي داودمیں ہے:

"٤٩٤٠ - حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن محمد بن عمرو، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: رأى رجلا يتبع حمامة فقال: «شيطان يتبع شيطانة»"

(كتاب الأدب، باب في اللعب بالحمام، ٤ / ٢٨٥، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:

"قال التوربشتي: وإنما سماه شيطانا لمباعدته عن الحق واشتغاله بما لا يعنيه، وسماها شيطانة لأنها أورثته الغفلة عن ذكر الله، والشغل عن الأمر الذي كان بصدده في دينه ودنياه. قال النووي: اتخاذ الحمام للفرخ والبيض، أو الأنس، أو حمل الكتب جائز بلا كراهة، وأما اللعب بها للتطير، فالصحيح أنه مكروه، فإن انضم إليه قمار ونحوه ردت الشهادة."

(كتاب اللباس، باب التصاوير، ٧ / ٢٨٥٦، رقم الحدیث: ٤٥٠٦، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

حاشية السندي علي ابن ماجهمیں ہے:

"قوله: (شيطان) أي: هو شيطان لاشتغاله بما لا يعنيه يقفو أثر شيطان أورثه الغفلة عن ذكر الله تعالى، قيل: اتخاذ الحمام للبيض والأنس ونحو ذلك جائز غير مكروه واللعب بها بالتطيير مكروه ومع القمار يصير مردود الشهادة."

(كتاب الأدب، باب اللعب بالحمام، ٢ / ٤١٢، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508100557

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں