بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کبیرہ گناہ کا کفارہ


سوال

گناہ کبیرہ کا کفارہ کیا ہے ؟

جواب

گناہِ کبیرہ کا کفارہ یہ ہے کہ اس پر صدق دل کے ساتھ اللہ رب ا لعزت کی بارگاہ میں اظہارِ ندامت و توبہ و استغفار کرے۔ صدق دل کے ساتھ کی گئی سچی توبہ سے کبیرہ گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں، اور توبہ کرتے وقت یہ پختہ عزم ہونا چاہے کہ آئندہ یہ گناہ نہیں کروں گا، اگر خدانخواستہ اس کے بعد پھر توبہ توڑ دی تو اس سابقہ گناہ کا وبال لوٹ کر نہیں آئے گا۔  

نیز  توبہ کی قبولیت کیلئے تین چیزوں کا ہونا ضروری:

اول اپنے کیے پر ندامت اور شرم ساری، حدیث میں ارشاد ہے: "إنما التوبة الندم" ”یعنی توبہ نام ہی ندامت کا ہے“۔

 دوسرا رکن توبہ کا یہ ہے کہ جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے اس کو فوراً چھوڑ دے اور آئندہ اس سے باز رہنے کا پختہ عزم و ارادہ کرے۔

تیسرا رکن یہ ہے کہ تلافی مافات کی فکر کرے، یعنی جو گناہ سر زد ہو چکا ہے اس کا جتنا تدارک اس کے قبضہ میں ہے اس کو پورا کرے، مثلاً نماز روزہ فوت ہوا ہے تو اس کو قضا کرے، فوت شدہ نمازوں اور روزوں کی صحیح تعداد یاد نہ ہو، تو غور و فکر سے کام لے کر تخمینہ متعین کرے، پھر ان کی قضا کرنے کا پورا اہتمام کرے، بیک وقت نہیں کر سکتا تو ہر نماز کے ساتھ ایک ایک نماز قضاءِ عمری کی پڑھ لیا کرے۔ ایسے ہی اگر فرض روزے چھوٹ گئے ہوں، تو متفرق اوقات میں روزوں کی قضا کا اہتمام کرے۔ فرض زکاۃ ادا نہیں کی تو گزشتہ زمانہ کی زکاۃ بھی یک مشت یا تدریجاً ادا کرے۔ کسی انسان کا حق لے لیا ہے تو اس کو واپس کرے۔ کسی کو تکلیف پہنچائی ہے تو اس سے معافی طلب کرے، بندے کا حق اس کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوسکتا، حقوق العباد سے متعلق گناہوں سے توبہ کی تکمیل کے لیے یہ ضروری شرط ہے۔اسی طرح اگر کسی کا مال یا جائداد غصب یا چوری کیا ہے، تو وہ بھی صاحب حق کو لوٹانا یا اس کا ضمان دینا ضروری ہے یا صاحب حق معاف کردے۔

لیکن اگر اپنے کیے پر ندامت نہ ہو، یا ندامت تو ہو مگر آئندہ کے لیے اس گناہ کو ترک نہ کرے، تو یہ توبہ نہیں ہے، گوہزار مرتبہ زبان سے توبہ توبہ کہا کرے۔ (مستفاد( مع تغییر ):معارف القرآن 2/342,ط:دارالعلوم ,کراچی)

 لہٰذا جس شخص سےگناہ سرزد ہوگیا ہو اگر وہ ان شرائط کے ساتھ توبہ کرچکا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ گناہوں کو معاف فرمائیں گے، اب اسے چاہیے کہ آئندہ ان گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرے، اور کسی متبعِ سنت اللہ والے سے اصلاحی تعلق قائم کرے اور جتنا ہوسکے اپنی نشست وبرخاست نیک لوگوں کے ساتھ رکھے، عبادات و طاعات میں اہتمام کے ساتھ مشغول رہے، حسبِ توفیق صدقہ بھی ادا کرتارہے۔

 اللہ رب العزت کا قرآن مجید میں ارشاد ہے :

"قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ"( الزمر: 53)

ترجمہ:" کہہ دو کہ : ” اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی  کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے"۔

اور صحیح بخاری میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا     ارشاد     ہے:

"٤٨١٠ - حدثني ‌إبراهيم بن موسى، أخبرنا ‌هشام بن يوسف: أن ‌ابن جريج أخبرهم: قال ‌يعلى: إن ‌سعيد بن جبير أخبره، عن ‌ابن عباس - رضي الله عنهما -: «أن ناسا من أهل الشرك، كانوا قد قتلوا وأكثروا، وزنوا وأكثروا، فأتوا محمدا صلى الله عليه وسلم فقالوا: إن الذي تقول وتدعو إليه لحسن، لو تخبرنا أن لما عملنا كفارة، فنزل {والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون} ونزل: {قل يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله}."

( كتاب التفسير، سورة الزمر، قوله: {يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله إن الله يغفر الذنوب جميعا إنه هو الغفور الرحيم}، ٦ / ١٢٥، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)

ترجمہ: " حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ مشرکین میں بعض نے قتل کا گناہ کیا تھا اور کثرت سے کیا تھا۔ اسی طرح زناکاری کا گناہ کیا تھا اور کثرت سے کرتے رہے تھے۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس کی طرف دعوت دیتے ہیں (یعنی اسلام) یقیناً اچھی چیز ہے، لیکن ہمیں یہ   بتائیے کہ اب تک ہم نے جو گناہ کئے ہیں وہ اسلام لانے سے معاف ہوں گے یا نہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:  "والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ‏ " اور وہ لوگ جو اللہ کے سوا اور کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی بھی جان کو قتل نہیں کرتے جس کا قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہے، ہاں مگر حق کے ساتھ"  اور یہ آیت نازل ہوئی:   "قل يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله‏" آپ کہہ دیں کہ اے میرے بندو! جو اپنے نفسوں پر زیادتیاں کر چکے ہو، اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بیشک اللہ سارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ بیشک اللہ وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے "۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101647

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں