بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کعبہ کی تصویر والی جائے نماز پر بیٹھنا اور اس پر نماز کا حکم


سوال

 اگر کسی مصلے پر خانہ کعبہ کی تصویر اور نقشہ بنا ہو تو ایسے مصلے پر نماز پڑھنا اور پڑھانا اور عصر اور فجر کی نماز میں گھوم کر اسی نقشہ پر بیٹھ جاتے ہیں اور اسی پر پیر بھی آجاتے ہیں تو کیا اس طرح کرنا کوئی توہین اور بے ادبی تو نہیں ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ جائے نماز پر  خانہ کعبہ  کی تصویر بنی ہوئی ہو ، اور نماز کے دوران ان تصاویر کی وجہ سے خشوع اور خضوع متاثر نہ ہو تو اس پر نماز پڑھنا جائز ہے اور اگر ان تصاویر کی وجہ سے ذہن بٹ جاتا ہو اور نماز کے دوران خشوع اور خضوع میں خلل اور کمی آتی ہو تو ایسی تصاویر والی جائے نمازوں پر نماز پڑھنے سے اجتناب مناسب ہے،مزید یہ کہ غیر مسلم سمجھتے ہیں کہ مسلمان ان تصاویر کی عبادت کرتے ہیں، اس لیے جائے نماز سادہ ہونا زیادہ بہتر ہے۔نیز واضح رہے   متبر ک مقامات کے جو نقوش بنائے  جاتے ہیں وہ بھی متبر ک ہوتے ہیں ، لہذا ان نقوش کا بھی ادب واحترام کرنا چائیے ، مصلّی (جائے نماز)  پر جو کعبہ یا گنبد   وغیرہ کے نقوش بنائے جاتے ہیں ، ان کے  اوپر  بیٹھنے سے بے ادبی سی ہوتی ہے ، اور عرفاً اس کو خلاف ادب شمار کیا جاتا ہے ، لہذا ایسے مصلّی (جائے نماز )  پر  کعبہ وغیرہ والی جگہ پر بیٹھناخلاف ادب ہونے کی وجہ سے نامناسب  ہے ۔

تبیین الحقائق میں ہے :

"(أو لغير ذي روح) أي أو ‌كانت ‌الصورة ‌غير ‌ذي ‌الروح مثل أن تكون صورة النخل وغيرها من الأشجار؛ لأنها لا تعبد عادة وعن ابن عباس أنه رخص في تمثال الأشجار."

(كتاب الصلاة،باب ما يفسد الصلاة ومايكره فيها،ج:1،ص:166،المطبعة الكبرى الاميريه)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال: جائے نماز پر خانہ کعبہ کی تصویر ہے، اس پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟ آیا اس تصویر کو دوسرا کپڑا چڑھا کر چھپا دیا جائے یا کیا کیا جائے؟ اگر فروخت کرتے ہیں تو چوتھائی قیمت ملتی ہے اور مسجد کا نقصان ہے۔
الجواب حامداً ومصلیاً: صورتِ مسئولہ میں ان مصلوں پر نماز پڑھنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، نہ ان پر کپڑا چڑھانے کی ضرورت ہے، نہ ان کو فروخت کرنے کی ضرورت ہے، وفي غنية المستملي: "وأما صورة غىر ذي روح، فلا خلاف في عدم كراهة الصلاة عليها أو إليها۔"، ص: 314۔"

(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الثانی فیما یکرہ الصلاۃ، ج: 6، ص: 671، ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

فتاوی مفتی محمود  میں ہے :

" جائے نمازوں پر جو متبرک نقوش بنائے جاتے ہیں ، اگر وہ کھڑے ہونے کی جگہ پر ہوں تب تو ان پر نماز نہ پڑھی جائے کیوں کہ ایسے متبرک نقوش کے پاؤں تلے آنے میں ان کی بے ادبی سی ہوتی ہے ، اور اگر سجدہ لگانے کی جگہ پر یہ نقوش ہوں جیسے عموماً ہوتا ہے تو اس پر نماز پڑھنے میں کوئی بے ادبی نہیں ہے ،کیوں کہ  ایسے  نقش پر سجدہ لگانا عرفا خلاف ادب شمار نہیں ہوتا  اس لیے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ، اور  ایسے مصلی پر نماز  پڑھنی جائز ہے۔"

(کتاب الصلاۃ ، باب فی احکام اللباس ج:2 ص:  768ط: جمعیۃ پبلیکیشنز)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144509100292

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں