بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے اور چاندی میں خمس لازم ہونے اور زکاۃ لازم ہونے کی تفصیل


سوال

معدنیات (سونا،چاندی) میں خمس کس طرح واجب ہے؟ جب کہ ہم نے چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد) سنا تھا ، برائے مہربانی مفصل طور پر سمجھا دیں۔

جواب

واضح رہے کہ معدنیات میں صرف سونا اور چاندی ہی داخل نہیں بلکہ یہ تین طرح کی ہوتی ہیں:ایک وہ،جوکان وغیرہ سے نکلتے ہوئے جامد ہوتی ہیں،اور اگر ان کو پگھلایا جائے،تو وہ پگھل جاتی ہیں،جیسے  سونا،چاندی،سیسہ،تانبا،لوہا وغیرہ،دوسری قسم وہ، جو نکلتے ہوئے جامد ہوتی ہیں،اور پگھلانے سے پگھلتی بھی نہیں،جیسے یاقوت،زمرد،چونا اوردیگر موتیوں کی اقسام،اور تیسری قسم ،وہ ہے جو زمین یا کان سے نکلتے ہوئےمائع(سیال) ہوتی ہیں،جیسے پیٹرول کا خام تیل،تارکول اور قیمتی گیسیں،وغیرہ

ان تمام اشیاء میں ’خمس‘ لازم ہونے کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ صرف پہلی قسم (جوکان سے نکلتے ہوئے جامد حالت میں ہوتی ہے،اور پھر پگھلانے سے پگھل بھی جاتی ہے) میں زمین سے نکالے جانے کے بعد ایک دفعہ خمس ادا کرنا لازم ہے،چاہے وہ زمین کسی کی مملوکہ  ہو یا سرکاری زمین ہو،اس کے علاوہ معدنیات کی دونوں قسموں میں،سوائے’ پارہ‘ کے،اور کسی چیز میں ،ان کی کانوں سے نکالےجانے کے وقت،خمس لازم نہیں ہوتا۔

اور ان اشیاء میں ’زکاۃ‘ کی تفصیل یہ ہے کہ پہلی کے علاوہ دونوں قسموں میں تو، جس طرح خمس نکالنا لازم نہیں ہے،اسی طرح زکاۃ بھی لازم نہیں ہے،ہاں اگر،تجارت کی نیت سے خریدا  ہو،تو زکاۃ لازم ہے،البتہ پہلی قسم کے تحت آنے والی ہر چیز میں خمس نکالنا تو لازم ہے،لیکن زکاۃ ،ان اشیاء میں سے، صرف سونے اور چاندی پر،ایک سال گزرنے کے بعد،یا صاحبِ نصاب پر سال مکمل ہونے پر لازم ہوتی ہے،اس کے علاوہ کسی چیز میں زکاۃ لازم نہیں ہوتی الا یہ کہ ان چیزوں کو خریدتے وقت، تجارت کی نیت ہو۔

 شریعت نے سونے اور چاندی کے اندر دو فریضے لازم کیے ہیں، ایک عمومی فریضہ،زکاۃ کی صورت میں ،جو عام حالات میں،اکثر افراد پر لازم ہوتا ہے،اور ایک خصوصی فریضہ،خمس کی صورت میں،جو خاص حالات میں،خاص افراد پر لازم ہوتا ہے،جن کی وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل فروق کو ملاحظہ کیا جائے،چناں چہ:

1)خمس،صرف ایک دفعہ لازم ہوتا ہے،جب کہ زکاۃ،ہر سال لازم ہوتی ہے۔

2)خمس،لازم ہونے کے لیےکوئی شرط یا کسی مقدارکی رعایت لازم نہیں،جب کہ زکاۃ ،لازم ہونے کی کچھ خاص شرائط ہیں،مثلاً،بقدرِ نصاب ہونا،دیون سے خالی ہونا،وغیرہ۔

3)خمس،صرف سونے،چاندی کو کان سے نکالنے والے پر لازم ہوتا ہے،جب کہ زکاۃ ،ہرصاحبِ نصاب، مالک پر لازم ہوتی ہے۔

4)خمس،صرف اسی وقت لازم ہوتا ہے،جب سونے،چاندی کوکان سے نکالا جاتا ہے،جب کہ زکاۃ،سال مکمل ہونے پر لازم ہوتی ہے۔

5)خمس کے مصارف الگ ہیں،اور یہ والدین اورفقیراولاد کو بھی دیا جاسکتا ہے،جب کہ زکاۃ کے مصارف الگ ہیں۔

ان مذکورہ،بالا فروق کو سامنےرکھتے ہوئے،جو ڈھائی فیصد کی بات ہے،’’زکاۃ کی صورت میں‘‘ وہ ایک الگ حیثیت سے ہے،اور درست ہے،اور جو  بیس فیصد کی بات ہے،’’خمس کی صورت میں‘‘ وہ ایک الگ حیثیت سے ہے،اور درست ہے،دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ 

"بدائع الصنائع"میں ہے:

"وأما المعدن فالخارج منه في الأصل نوعان: مستجسد ومائع، والمستجسد منه نوعان أيضا: نوع يذوب بالإذابة وينطبع بالحلية كالذهب والفضة والحديد والرصاص والنحاس ونحو ذلك، ونوع لا يذوب بالإذابة كالياقوت والبلور والعقيق والزمرد والفيروزج والكحل والمغرة والزرنيخ والجص والنورة ونحوها، والمائع نوع آخر كالنفط والقار ونحو ذلك...فإن وجد في دار الإسلام في أرض غير مملوكة فالموجود مما يذوب بالإذابة وينطبع بالحلية يجب فيه الخمس سواء كان ذلك من الذهب، والفضة، أو غيرهما مما يذوب بالإذابة وسواء كان قليلا، أو كثيرا فأربعة أخماسه للواجد...وأما عندنا فالواجب خمس الغنيمة في الكل لا يشترط في شيء منه شرائط الزكاة ويجوز دفعه إلى الوالدين، والمولودين الفقراء كما في الغنائم ويجوز للواجد أن يصرف إلى نفسه إذا كان محتاجا ولا تغنيه الأربعة الأخماس...وأما ما لا يذوب بالإذابة فلا خمس فيه ويكون كله للواجد؛ لأن الزرنيخ، والجص، والنورة ونحوها من أجزاء الأرض فكان كالتراب، والياقوت، والفصوص من جنس الأحجار إلا أنها أحجار مضيئة ولا خمس في الحجر.وأما المائع كالقير، والنفط فلا شيء فيه ويكون للواجد؛ لأنه ماء وأنه مما لا يقصد بالاستيلاء فلم يكن في يد الكفار حتى يكون من الغنائم فلا يجب فيه الخمس وأما الزئبق ففيه الخمس في قول أبي حنيفة الآخر وكان يقول أولا: لا خمس فيه..."

(ص:67،ج:2،كتاب الزكاة،فصل حكم المستخرج من الأرض،ط:دار الكتب العلمية)

"ألفتاوي الهندية"میں ہے:

"وأما اليواقيت واللآلئ والجواهر فلا زكاة فيها، وإن كانت حليا إلا أن تكون للتجارة كذا في الجوهرة النيرة. ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها لا تجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة."

(ص:180،ج:1،کتاب الزکاۃ،مسائل شتی فی الزکاۃ،ط:دارالفکر،بیروت)

وفيه ايضا:

"تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال مضروبا كان أو لم يكن مصوغا أو غير مصوغ حليا كان للرجال أو للنساء تبرا كان أو سبيكة كذا في الخلاصة."

(ص:178،ج:1،کتاب الزکاۃ،ألباب الثالث،ط:دارالفکر،بیروت)

"رد المحتار علي الدر المختار"میں ہے:

"والحاصل: أن ‌الكنز ‌يخمس ‌كيف ‌كان والمعدن إن كان ينطبع."

قوله: كيف كان :أي سواء كان من جنس الأرض أو لا بعد أن كان مالا متقوما بحر ويستثنى منه كنز البحر كما يأتي.قوله: إن كان ينطبع: أما المائع وما لا ينطبع من الأحجار فلا يخمس كما مر."

(ص:322،ج:2،کتاب الزکاۃ،باب الرکاز،ط:ایج ایم سعید)

وفیه ايضا:

"ولا إلى من بينهما ولاد."

"قوله: وإلى من بينهما ولاد: أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلا يتحقق التمليك على الكمال هداية...أي أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما وفرعه وإن سفل ...وكذا كل صدقة واجبة كالفطرة والنذر والكفارات، وأما التطوع فيجوز بل هو أولى كما في البدائع، وكذا يجوز خمس المعادن؛ لأن له حبسه لنفسه إذا لم تغنه الأربعة الأخماس كما في البحر عن الإسبيجابي، وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة."

(ص:346،ج:2،کتاب الزکاۃ،باب مصرف الزكاة والعشر،ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408101306

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں