میری کام والی نے لوگوں سے قرضہ لے کر اپنا گھر خریدا، پھر اپنے شوہر کی ٹانگ کا علاج کرانے کے لیے مزید دو مرتبہ قرضہ لیا، تو کیا اسے زکات دے کر اس کا قرضہ اتارا جا سکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ خاتون کی ملکیت میں اتنا سونا، چاندی یا نقدی موجود نہیں ہے کہ جس سے وہ قرضہ اتار سکے، اور قرضہ اتارنے کے بعد ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی نقدی ( جو کہ حکومتِ پاکستان کے اعلان کے مطابق ماہ اپریل 2021 میں 80933 روپے ہے) یا اتنی مالیت کا استعمال سے زائد سامان نہ ہو تو ایسی صورت میں مذکورہ خاتون کو زکات دی جاسکتی ہے، بشرطیکہ وہ سید گھرانے سے نہ ہو ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
(ومنها الغارم) ، وهو من لزمه دين، ولا يملك نصابا فاضلا عن دينه أو كان له مال على الناس لا يمكنه أخذه كذا في التبيين. والدفع إلى من عليه الدين أولى من الدفع إلى الفقير كذا في المضمرات.
(كتاب الزكا ة، الباب السابع في المصارف، ١ / ١٨٨، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم كذا في السراج الوهاج.
( كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ١ / ١٨٩، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144208201157
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن