بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کام والی مقروض خاتون کو زکات دینا


سوال

میری کام والی نے لوگوں سے قرضہ لے کر اپنا گھر خریدا،  پھر  اپنے شوہر کی  ٹانگ کا علاج کرانے کے لیے مزید دو مرتبہ  قرضہ لیا، تو  کیا اسے  زکات دے کر اس کا قرضہ اتارا جا سکتا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر مذکورہ خاتون کی ملکیت میں  اتنا سونا، چاندی یا نقدی موجود نہیں ہے کہ جس سے وہ قرضہ اتار سکے، اور قرضہ اتارنے کے بعد  ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی نقدی  ( جو کہ حکومتِ پاکستان  کے اعلان کے مطابق  ماہ اپریل 2021 میں 80933 روپے ہے) یا اتنی مالیت کا استعمال سے زائد سامان نہ ہو تو ایسی صورت میں مذکورہ خاتون کو زکات دی جاسکتی ہے، بشرطیکہ وہ سید گھرانے سے نہ ہو  ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

(ومنها الغارم) ، وهو من لزمه دين، ولا يملك نصابا فاضلا عن دينه أو كان له مال على الناس لا يمكنه أخذه كذا في التبيين. والدفع إلى من عليه الدين أولى من الدفع إلى الفقير كذا في المضمرات.

(كتاب الزكا ة، الباب السابع في المصارف، ١ / ١٨٨، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم كذا في السراج الوهاج.

( كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ١ / ١٨٩، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201157

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں