بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کافی عرصے تک قیمت ادا نہ کرنے کی وجہ سے سودے کوفسخ کرنے کا حکم


سوال

ہمارے گھر کی  آج سے 15 سال قبل وراثت تقسیم ہوئی تھی ،  جس میں دکان مکان زمین اور نقد رقم بھی شامل تھی ،   وراثت ہذا کو حسب شرع تقسیم کر دیا گیا تھا ،لین دین (مکان اور دکان کی قیمت لگاکر   ) میں آپسی تبادلہ ہوا اور طے پایا جس کے ذمے واجب الأداء رقم ہوگی اتنی مدت میں ادا کی  جائے گی ،  لیکن آج پندرہ سال کا عرصہ گزر گیا  ہے بعض وارثین اپنی وراثت کا مطالبہ کرتے ہیں تو دیتوں دلاتوں ٹال مٹول کرتے ہیں تقسیم کردہ املاک کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئی ہیں  ، تو سوال یہ ہے فروخت کنندہ کا جو نقصان ہوا ہے یا ہو رہا ہے اس کی تلافی کی کیا صورت ہے ؟ کیا وہ بیع یا وراثت کی تقسیم فسخ ہوسکتی ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں ورثاء کے درمیان مکان اور دکان کی قیمت لگاکر جو   سودا ہوا  تھا اور خریدار  وارثاء پر   جو متعینہ مدت تک  مقررہ  رقم اداکرنے  شرط لگائی گئی   تھی، وہ مذکورہ رقم خریدار ورثاء کے ذمے  قرض تھی، اور قرض کے متعلق شریعتِ مطہرہ کا بالکل واضح اصول ہے کہ قرض کی وصولی  میں طے شدہ مدت سے زیادہ عرصہ گزرنے کی بنیاد پر واجب الادا قرض کی مقدار سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے، ورنہ سودی لین دین لازم آئے گا، چاہے املاک  کی قیمت کم ہوگئی ہو یا زیادہ،  اس سے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا،اس  لیے آپ کے  لیے نقصان کی تلافی یا کسی بھی دوسرے نام سے خریدار ورثاء  سے طے شدہ رقم سے زیادہ وصول کرنا جائز نہیں ہے، تاہم اگر خریدار نے گنجائش کے باوجود ٹال مٹول سے کام لیا، یا اس کا مقصد آپ کو نقصان پہنچانا تھا تو اس کا یہ عمل  شرعاگناہ ہوگا، باقی جہاں تک بات عقد کو فسخ کرنے کی ہے، توچوں کہ فروخت کنندہ ورثاء نے  عقد کے وقت مقررہ مدت  میں پیسے نہ دینے کی صورت میں بیع فسخ کرنے کا اختیار  رکھنے کی شرط نہیں لگائی تھی اس لیے   اب فروخت کنندہ ورثاء  مذکورہ سودا  فسخ نہیں کرسکتے ۔

تنقیح الفتاوی الحامدية میں ہے:

"الدیون تقضیٰ بامثالها."

(کتاب البیوع، باب الصرف  ج: 1 ص: 504 ط: قدیمی)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه : کل قرض جر نفعا حرام."

(کتاب البیوع ، فصل فی القرض ج: 5 ص: 166 ط: سعید)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام :

" إذا لم يؤد المشتري الثمن في المدة المعينة كان البيع الذي فيه خيار النقد فاسدا. المراد من المدة المعينة ما يعينه الطرفان في عقد البيع فإذا أدى المشتري الثمن إلى البائع في تلك المدة أصبح البيع صحيحا ولازما أما إذا لم يؤد المشتري الثمن في تلك المدة بقي المبيع على حاله فالبيع الذي ينعقد بخيار النقد لا ينفسخ بل يكون فاسدا وإذا كان المبيع في يد المشتري وباعه بعد مرور المدة أو وهبه وسلمه آخر كان تصرفه نافذا ويضمن المشتري بدله إلى البائع. أما إذا لم يكن المبيع في قبضته فتصرفه لا يكون نافذا (انظر المادتين 371 و 382) .

توضيح القيود: (في المدة المعينة) يؤخذ من هذه العبارة أن المشتري إذا لم يؤد الثمن في المدة المعينة بل بعد انقضائها فلا ينقلب البيع إلى الصحة لأنه صار فاسدا بعدم الأداء ولا يرتفع الفساد بعد ذلك (بقي المبيع على حاله) فإذا لم يبق على حاله وتصرف فيه المشتري في المدة المعينة قبل نقد الثمن أو تلف في يده أو استهلكه فالبيع يصير لازما ولا يبقى حق الفسخ فلذلك يجب على المشتري أن يؤدي ثمن المبيع إلى البائع (رد المحتار) لأن البيع بخيار النقد بمنزلة البيع بخيار الشرط أما إذا حصل عيب في المبيع بخيار النقد وهو في يد المشتري بلا تعد ولا تقصير والمدة المعينة ثم انقضت تلك المدة ولم يدفع المشتري إلى البائع ثمن المبيع فالبائع مخير بين أخذ المبيع معيبا وحينئذ لا يأخذ شيئا من الثمن، وترك المبيع للمشتري مع أخذ الثمن، أما إذا تلف المبيع في يد المشتري بعد مرور المدة المعينة وقبل أن يؤدي الثمن أو أتلفه هو ضمن قيمته أو بدله للبائع (بزازية) . (انظر المادة 371) ."

(الكتاب الأول البيوع ، الباب السادس في بيان الخيارات ، الفصل الثالث في حق خيار النقد ج: 1 ص: 310 ط: دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100832

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں