بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا میت کو ایصال ثواب پہنچتا ہے؟


سوال

کیا میت کو ایصال ثواب پہنچتا ہے؟

جواب

اہلِ سنت والجماعت کاعقیدہ ہےکہ جولوگ اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ان کے لئے دعا بھی کی جاسکتی ہے،اور ان کے لئے اعمال ہدیہ بھی کیے جاسکتے ہیں ،خواہ پڑھ کربخشاجائے یاخیرات وغیرہ بخشے جائیں،اور میت کوان اعمال کاثواب پہنچتا ہے،اور اعمال کاایصال ثواب کئی احادیث سے ثابت ہے۔چنانچہ:

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

 "و عن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال:"الماء" فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي."

(کتاب الزکاۃ،باب فضل الصدقۃ،1342/4،رقم،1912،ط،دار الفکر)

ترجمہ:’’حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے، ان کے لیے کیا  صدقہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پانی،  انہوں نے ایک کنواں کھدوایا، اور فرمایا کہ یہ سعد کی والدہ کے لیے ہے۔‘‘

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رجلاً قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أبي مات وترك مالاً، ولم يوص، فهل يكفر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: «نعم»."

(کتاب الوصیۃ ،باب وصول ثواب الصدقات الی المیت،73/5،رقم،1630،ط،بیروت)

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی علیہ السلام سے پوچھا: میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے اپنے پیچھے مال چھوڑا ہے، لیکن کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں ان کی جانب سے صدقہ خیرات کردوں، کیا ان کے گناہوں کے لیے معافی کا ذریعہ ہوجائے گا؟ فرمایا: ہاں! تمہارے صدقات سے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔‘‘

ان احادیث سے معلومات ہوتا ہے کہ میت کو ایصال ثواب پہنچتاہے اور میت کو اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ‌ثواب ‌عمله ‌لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة.. ولھذا اختاروا فی الدعاء: اللھم اوصل مثل ثواب ما قرأتہ الی فلان، واما عندنا فالواصل الیہ نفس الثواب وفی البحر: من صام اوصلی او تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الاموات والاحیاء جاز، ویصل ثوابھا الیھم عند اھل السنۃ والجماعۃ کذا فی البدائع۔"

(کتاب الصلاۃ ،باب زیارت القبور،243/2،ط،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101948

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں