بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

المراۃ کالقاضی خاص صورت میں ہے /سسرکا اپنے داماد پر طلاق دینے کا دعوی


سوال

1۔متعدد کتب فقہ میں المرأة کالقاضی والی عبارت ہے جس میں یہ جزئیہ "او اخبرها شاهد عدل فلیس لها التمکین" مطلقاً تمام صورتوں میں ہے یا خاص خاص صورتوں میں ؟

2۔اگر لڑکی کا باپ یعنی خسر یہ دعوی کرے کہ شوہر نے طلاق کے الفاظ کہے اور شوہر اس کا انکار کرے اور خسر کے پاس اپنے دعوی پر گواہ بھی نہ ہوں لیکن لڑکی کو اپنے باپ کی بات پر اعتماد اور اطمینان ہونے کی وجہ سے کیا دیانۃ اس پر لازم ہے کہ وہ شوہر کو اپنے اوپر قابو نہ دے اور شوہر سے الگ تھلگ رہے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں"او اخبرها شاهد عدل فلیس لها التمکین"جزئیہ   خاص صورت میں ہے ،یعنی صرف طلاق کے معاملے میں بیوی کو قاضی کے طرح شمار کیاجائے گااوراس کو طلاق کے معاملہ میں اپنےشوہر  سے سنے ہوئے الفاظ کےظاہری معنی پر عمل کرناواجب ہوگا،جس طرح کہ  قاضی کو الفاظ کے ظاہری معنی پر عمل کرناواجب ہے۔

2۔اگر سسر کا اپنے داماد پر یہ دعوی ہو کہ داماد نے اس کی بیٹی کو طلاق دی اور دماد انکار کرے کہ میں نے طلاق نہیں دی  تو ایسے اختلاف کی صورت میں کسی ایک بات پرفتوی نہیں دیاجاسکتاہے اس کاحل یہ ہے کہ  دونوں (سسر،داماد )   کسی مستند عالم ِدین یا مفتی کے پاس جاکر انہیں اپنے اس مسئلے کا  فیصل/ثالث مقرر کریں ،  پھر سسر  اس کے سامنے اپنا دعویٰ پیش کرے  اور ثالث اس سے اس کے دعوی پر دو گواہ طلب کرے، اگر وہ گواہ پیش کردے تو  اس کی بیٹی پر طلاق واقع ہونے کا فیصلہ دے دےگا، اور اگر  سسر شرعی گواہ  پیش کرنے میں ناکام ہوجائے تو سسر  کے مطالبہ پر داماد (مدعی علیہ)  پر قسم آئے گی،   اگر داماد  اس طرح قسم اٹھالیتا ہے کہ "میں  قسم اٹھاکر کہتا ہوں کہ میں نے فلانۃ  بنتِ  فلاں کو  طلاق نہیں دی" تو   ثالث  طلاق واقع  نہ ہونے کا فیصلہ کرے گا۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"والقاضي مأمور باتباع الظاهر ولكن يحتمل تكرار الأول والله تعالى مطلع على ضميره فيدين فيما بينه وبين الله تعالى."

ولا يسع المرأة إذا سمعت ذلك أن تقيم معه لأنها مأمورة باتباع الظاهر ‌كالقاضي"

(كتاب الطلاق، باب ما تقع به الفرقة مما يشبه الطلاق،ل؛6،ص:80،ط:دارالمعرفة بيروت لبنان )

البحر الرئق میں ہے:

"والمرأة ‌كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه هكذا اقتصر الشارحون وذكر في البزازية وذكر الأوزجندي أنها ترفع الأمر إلى القاضي فإن لم يكن لها بينة يحلفه فإن حلف فالإثم عليه"

(كتاب الطلاق ،باب الفاظ الطلاق،ج:3،ص:277،ط:دارالكتاب الاسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404101945

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں