بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کے جی نامی ایپ (KG app) کی کمائی کا حکم


سوال

App name: KG app کے ذریعے کام کرکے کمانا جائز ہے یا نہیں؟ اس میں کام کرنے کی تفصیل کچھ یوں ہے: پہلے ڈاؤن لوڈ اور انسٹال کیا جائے تو کمپنی والے 399 روپے بونس دیتا ہے ساتھ میں تین دن تک تین تین ٹاسک   ملتے ہیں جن کو کرکے پورے 579 روپے بونس بن جاتا ہے۔

انویسٹمنٹ: فری کے بعد پھر کام خریدتے ہیں  جو داخلے کی شکل میں ہوتا ہے اگر کوئی 1ہزار روپے دے تو ان کو دن میں 1 لنک دیا جاتا ہے اگر کوئی 2 ہزار روپے دیں  تو 2، کوئی 4 ہزار دے تو 4، اگر کوئی 8 ہزار روپے دے تو 8 لنکس دئیے جاتے ہیں۔

لنکس: لنکس پر جاکر ویڈیو اوپن کر کے صرف لائک کر کے ان کو سکرین شاٹ سینڈ کیا جاتا ہے ۔

ویڈیوز: ویڈیوز ہو یا کوئی پوسٹ ہو ذیادہ تر وہ خوراک تیار کرنے کے طریقوں پر ہوتی ہے باہر ملک والوں کی پوسٹس ہوتی ہیں۔

پیسے واپس: پیسے داخلے کے لئے بہ الفاظ دیگر پیکج خریدنے کے لئے دے تو وہ واپس نہیں کرتے بلکہ ہمیں صرف کام کے پیسے ملتے ہیں جو لنکس کے حساب سے ہوتے ہیں۔

کمیشن کی بات: ہم نے خود کر لیا تو پھر کمپنی والوں کے ساتھ ہم باقی بندوں کو جب انوائٹ کرتے ہیں ان کو ایپ کا پورا ڈیٹیل دیتے ہیں طریقہ سمجھاتے ہیں کام کرنا سمجھاتے ہیں، پیسے بھیجنا اور واپس لینا وغیرہ جو بھی ہو ہم ان کو حل کرتے ہیں پورے گھنٹے سمجھانے پر لگے رہتے ہیں پھر کوئی اور بات آتی ہو تو کمپنی سے رابطہ کرتے ہیں وہ کمپنی ہمیں جواب دیتی  ہیں ہم اس طرح سے اپنے ممبرز کوگائڈ کرتے ہیں اس کے بدلے کمپنی ہمیں یہ آفر دیتی ہے کہ جب کوئی بندہ داخلہ لیتا ہے یا پیکج خریدتا ہے تو اس میں کمپنی ہمیں اپنی جانب سے 16% کمیشن دیتے ہیں ۔ اور جن کو ہم نے سکھایا ہوتا ہے اور انوائٹ لنک دیا ہوتا ہے تو وہ جب اپنی ٹاسکس مکمل کرتے ہیں تو کمپنی ہمیں اپنی جانب سے 5% کمیشن دیتا ہے ۔ اس قسم کی کمائی میں شرعاًکوئی خرابی ہو تو وضاحت فرمائیں۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں کے جی نامی ایپ سے  درج ذیل مفاسد  کی وجہ سے رقم حاصل کرنا  ناجائز ہے ۔

1۔مذکورہ ایب کی جانب سے روزانہ کلک کرنے کے لیے جو ٹاسک ملتا ہے اور اس پر کلک کرنے پر بطور معاوضہ پیسہ دیا جاتا ہے یہ بظاہر اجارہ کا معاملہ ہے ؛لیکن اس  میں خرابی یہ ہے کہ اجارہ میں اجیر سے کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا بلکہ اجیر کو اس کے عمل پر محنتانہ دیا جاتا ہے جبکہ مذکورہ ایپ میں اجیر کو پہلے رقم پیش کرنی ہوتی ہے اور اس پر اس کو ٹاسک ملتا ہے جتنی رقم زیادہ ہوگی اسی حساب سے روزانہ کی کمائی بھی بڑھے گی ،مزید یہ کہ ٹاسک پر کلک کرنا  فی نفسہ کوئی  مفید عمل نہیں جس پر اجارہ کو درست کہا جا سکے۔

2۔مذکورہ ایپ میں لنک پر کلک کرنے کے بعد جاندار کی  یا نامحرم کی تصویر پر مشتمل ویڈیوز دیکھ کر اس کو لائک کیا جاتا ہے ۔

3۔مذکورہ ایپ سے رقم حاصل کرنا چوں کہ شرعاً جائز نہیں ؛لہذا اس ایپ میں کسی کو انوائٹ کرکے اس کے عوض کمیشن لینا گناہ کے کام میں تعاون کی وجہ سے ناجائز ہے ۔

قرآن مجید میں ہے :

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ۔(سورة المائدة2)

فتاوی شامی میں ہے :

"‌والأجرة ‌إنما ‌تكون ‌في ‌مقابلة ‌العمل".

(باب المہر،ج:3،ص:156،سعید)

البحر الرائق میں ہے :

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: ‌تصوير ‌صور ‌الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه - صلى الله عليه وسلم - «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ. فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."

(باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ،ج:2،ص:29،دارالکتاب الاسلامی)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے :

"الإجارۃ علی المنافع المحرمۃ کالزنی والنوح والغناء والملاہی محرمۃ وعقدہا باطل لا یستحق بہٖ أجرۃ۔ ولا یجوز استئجار کاتب لیکتب لہٗ غنائً ونوحًا ، لأنہٗ انتفاع بمحرم۔ وقال أبو حنیفۃ : یجوز ، ولا یجوز الاستئجار علی حمل الخمر لمن یشربہا ، ولا علی حمل الخنزیر."

(کتاب الاجارۃ،الاجارۃ علی المعاصی ،ج:1،ص:290،دارالسلاسل)

حدیث میں ہے :

"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أيُّ الكسب أطيب؟قال: "عمل الرجل بيده، وكلّ بيعٍ مبرورٍ".

(شعب الایمان،باب التوکل باللہ عزوجل ،ج:2،ص:434،مکتبۃ الرشد)

الکاشف عن حقائق السنن میں ہے :

"قوله: (مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به".

(کتاب البیوع،باب الکسب وطلب الحلال،ج:7،ص:2112،مکتبۃ نزار)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101776

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں