بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جذام کی بیماری کو بنیاد بنا کر خلع لینا


سوال

کیا شوہر جذام کے مرض میں مبتلا ہوجاۓ تو عورت خلع لےسکتی ہے؟ نیز کن امراض کی بنا پر عورت  خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر عورت کا   کسی وجہ سے شوہر کے ساتھ نباہ مشکل ہے، اور اس کو اس  بات کا خوف ہے کہ  وہ اس حال میں شوہر کے حقوق اور اَحکامِ خداوندی  پورے نہیں کر سکے گی تو وہ  شوہر کو  اپنا حق مہر واپس کرکے یا کچھ مال بطورِ فدیہ کے دے کر شوہرکو  خلع  پر راضی کر کے خلع  حاصل کرسکتی ہے،  خلع کے مطالبے کے لیے جذام یا کسی اور بیماری کو وجہ بنانا ضروری نہیں ہے، البتہ اگر شوہر کے جذام کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وہ ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو وہ شوہر سے خلع کا تقاضا کرسکتی ہے، لیکن اس صورت میں بھی خلع کے شرعاً معتبر ہونے کے لیے شوہر کی رضامندی  ضروری ہے، شوہر کی رضامندی کے بغیر شرعاً خلع معتبر نہیں ہے۔ اور اگر اس حالت میں بھی وہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہو، یا شوہر کے نکاح میں رہنا چاہتی ہو، تو وہ رہ سکتی ہے، کسی اور کا اسے خلع لینے پر مجبور کرنا درست نہیں ہوگا۔

 ارشاد باری تعالیٰ ہے جس کا ترجمہ ہے:

"سواگرتم لوگوں کو(یعنی میاں بیوی کو) یہ احتمال ہوکہ وہ دونوں ضوابط خداوندی کوقائم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہوگا کہ اس (مال لینے دینے میں ) جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔"

(بیان القرآن،سورۃ البقرۃ،1/133)

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المنتزعات والمختلعات هن المنافقات». رواه النسائي".

(باب الخلع،  الفصل الثالث،ج: 2، صفحہ: 980، رقم الحدیث: 3290، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

  (کتاب الطلاق،باب الخلع، ج: 3، صفحہ: 441، ط: ایچ، ایم، سعید)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"فيحتمل الفسخ بالتراضي أيضًا، وذلك بالخلع، واعتبر هذه المعاوضة المحتملة للفسخ بالبيع والشراء في جواز فسخها بالتراضي."

(باب الخلع، ج: 6، صفحہ: 171، ط: دار المعرفہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں