بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جوا کے غیرمشروع اور گناہ ہونے کی حکمت / حرام مال کھانے کا گناہ اور سزا / حلال پیسوں کے ساتھ حرام پیسوں کی زیادتی اور کثرت کی صورت میں اس کے استعمال کا حکم


سوال

1:کرکٹ یا کسی بھی گیم پر  جوا کھیلنا گناہ کیوں ہے؟ اس کی کوئی حکمت ہے؟

2:حرام مال کھانے پر کیاگناہ  اور کیا سزا ہے؟

3:اگر ایک گھر میں حلال و حرام دونوں قسم کے پیسےآتے ہوں، لیکن حرام پیسے کی کثرت و زیادتی ہو ، تو اس صورت میں ان پیسوں کے استعمال کا کیا حکم ہے؟

جواب

1: ''جو ا'' جسے عربی زبان میں "قمار"اور "میسر" کہا جاتا ہے،در حقیقت ہر وہ معاملہ ہے جس میں’’مخاطرہ ہو‘‘، یعنی قمار کی حقیقت یہ ہے کہ ایسا معاملہ کیا جائے جو نفع ونقصان کے خطرے کی بنیاد  پرہو، جواچاہے کسی کھیل وغیرہ میں پایاجائے یاکسی بھی عام معاملہ میں،ازروئے شرع حرام اور گناہ کبیرہ ہے،اس کے گناہ ہونے کی سب سے بنیادی دلیل یہ ہے کہ   قرآن کریم  و حدیث میں جوے کی واضح ممانعت موجود ہے:

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ " [المائدة :90]

ترجمہ :"اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من حلف فقال في حلفه: واللات والعزى، فليقل: لا إله إلا الله، ‌ومن ‌قال ‌لصاحبه: ‌تعال ‌أقامرك، فليتصدق»."

(کتاب تفسیر القرآن، ج:6، ص:141، ط:دار طوق النجاة)

"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے قسم کھائی لات اور عزی ٰ کی تو اس کو چاہئے کہ وہ لا الہ الا اللہ کہے، اور جس شخص نے اپنے ساتھی سےکھاکہ "آؤ جوا کھیلیں"تو اس کو چاہیئے کہ وہ صدقہ کرے۔" 

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو قال: ‌من ‌لعب ‌بالنرد ‌قمارا كان كآكل لحم الخنزير، ومن لعب بها غير قمار كان كالمدهن بودك الخنزير."

(كتاب الأداب، فصل في اللعب بالنرد وما جاء فيه، ج:14، ص:372، ط:دار كنوز)

"حضرت عبداللہ ابن عمرورضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ جوشخص نے نرد(چوسر) جوے کے طور پر کھیلتاہے وہ خنزیر کا گوشت کھانے والے کی طرح ہے،اور جو شخص نرد جوئے کے طور پر نہیں کھیلتاتو اس کی مثال خنزیر کی چربی کا تیل استعمال کرنے والے کی طرح ہے۔" 

جوئے کے ممنوع ہونے کی حکمت :

جس معاشرے میں جوا اور سٹہ بازی کا چلن عام ہوجائے،تو وہاں لوگوں میں نفرت و عداوت اوردین سے دوری کی  فضا پیدا ہوجاتی ہے،اسی لیے اسلام کی آمد سے قبل عرب معاشرے میں جوا کھیلاجاتا تھا تو وہ دین سے بھی دور تھے،اور ان میں قتل و غارت گری بھی بکثرت پائی جاتی تھی،اسی لیے قرآن مجید میں  جوے کی ممانعت کی حکمت اور وجہ   میں یہ دو چیزیں اور بالخصوص نماز سے دوری کو ذکر کیا گیا ہے۔

"إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ"(سورة المائدة:91)

ترجمہ:شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کردے،اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے،سو اب بھی باز آؤ گے۔"(از بیان القرآن)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار; قال ابن عباس: ‌إن ‌المخاطرة ‌قمار وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحا إلى أن ورد تحريمه ."

(باب تحريم الميسر، ج:1، ص:398، ط:دارالكتب العلمية)

حجۃ اللہ البالغۃ میں ہے:

"وكان الميسر والربا شائعين في العرب، وكان قد حدث بسببهما مناقشات عظيمة لا انتهاء لها ومحاربات، وكان قليلهما يدعوا إلى كثيرهما، فلم يكن أصوب ولا أحق من أن يراعى حكم القبح والفساد موفرا، فينهى عنهما بالكلية."

(البيوع المنهي عنها، ج:2، ص:165، ط:دارالجيل)

فتاوی شامی میں ہے:

"القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:403، ط:سعيد)

2:حرام مال اگر بے دھیانی اور لاعلمی میں کھالیاجائے تو اس صورت میں کوئی گناہ یا سزا نہیں ہے، البتہ اگر کسی چیز یا مال کے حرام ہونے کا علم ہو،اس کے باوجود کوئی شخص وہ حرام  کھائے تو یہ گناہ کبیرہ ہے،قرآن و حدیث میں حلال و طیب مال کھانے اور حرام سے اجتناب کرنے کا حکم وارد ہوا ہے۔

" يَآ اَيُّـهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ۖ اِنِّـىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْـمٌ " (المومنون:51)
ترجمہ"اے پیغمبرو! تم (اور تمہاری اُمتیں) نفیس، پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک اعمال کرو (اور) میں تم سب کے کیے ہوئے کو خوب جانتا ہوں۔"( بیان القرآن)

" يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا  "(البقرة:168)

ترجمہ"اے لوگو! جو چیزیں زمین میں موجود ہیں ان میں سے (شرعی) حلال پاک چیزوں کو کھاؤ۔"(بیان القرآن)

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ " (النساء :29)

ترجمہ :" اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طور پر مت کھاؤ لیکن کوئی تجارت ہو جو باہمی رضامندی سے ہو تو مضائقہ نہیں ۔"( بیان القرآن)

احکام القرآن للجصاصؒ میں ہے:

"قوله تعالى: {لا تأكلوا أموالكم ‌بينكم ‌بالباطل} نهي لكل أحد عن أكل مال نفسه ومال غيره بالباطل. وأكل مال نفسه بالباطل إنفاقه في معاصي الله; وأكل مال الغير بالباطل قد قيل فيه وجهان: أحدهما: ما قال السدي وهو أن يأكل بالربا والقمار والبخس والظلم، وقال ابن عباس والحسن: أن يأكله بغير عوض."

(ج:2، ص:216، ط:دارالكتب العلمية)

حرام مال کھانے کی سزا:

حرام کھانے کی سزا و عقاب اور وبال سے متعلق متفرق احادیث مروی ہیں،چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: اے لوگوں!بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہیں اور پاکیزہ مال ہی قبول کرتے ہیں،اور بے شک اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو بھی اسی چیز کا حکم دیا ہےجس کا حکم پیغمبروں کو دیا ہے،اور پھر  یہ دوآیات تلاوت فرمائیں:"يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم"،"يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم"، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے آدمی کا تذکرہ فرمایا جو لمبے سفر میں پراگندہ حال میں غبار آلود ہوچکا ہو،اور  وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر دعامانگتے ہوئے کہہ رہاہو:اے میرے رب! اے میرے رب!جب کہ (حقیقت حال یہ ہو کہ ) اس کا کھانا حرام،اس کا پیناحرام اور اور اس کا اوڑھنا حرام ہو،اورحرام کی غذا اسے مل رہی ہوسو اس حالت میں اس کی دعائیں کیسے قبول ہوسکتی ہیں؟

"عن أبي هريرة؛ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أيها الناس! إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا. وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين. فقال: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم}. وقال: {يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم} ". ثم ذكر الرجل يطيل السفر. أشعث أغبر. يمد يديه إلى السماء. يا رب! يا رب! ومطعمه حرام، ومشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام. ‌فأنى ‌يستجاب لذلك؟"

(كتاب الزكاة،باب قبول الصدقة من الكسب الطيب وتربيتها، ج:2، ص:703، ط:دارالتراث العربي)

المعجم الاوسط للطبرانی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی:"يا أيها الناس كلوا مما في الأرض حلالا طيبا"،  تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا: یارسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے لیے دُعا کیجیے کہ میں مستجاب الدعوات ہوجاوٴں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اپنے کھانے کو پاک کرو! اللہ کی قسم! جب کوئی شخص حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اللہ تعالیٰ اُس کا عمل قبول نہیں کرتا، جس شخص کا بدن حرام مال سے بڑھا تو اُس کا بدلہ سوائے جہنم کے اورکچھ بھی نہیں ہے۔"

عن ابن عباس قال: تليت هذه الآية عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: {يا أيها الناس كلوا مما في الأرض حلالا طيبا}  فقام سعد بن أبي وقاص، فقال: يا رسول الله، ادع الله أن يجعلني مستجاب الدعوة، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: يا سعد أطب مطعمك تكن مستجاب الدعوة، والذي نفس محمد بيده، ‌إن ‌العبد ‌ليقذف اللقمة الحرام في جوفه ما يتقبل منه عمل أربعين يوما، وأيما عبد نبت لحمه من السحت والربا فالنار أولى به."

(المعجم الأوسط للطبراني، ج:6، ص:310، ط:دارالحرمين)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌الحرمة ‌تتعدد مع العلم بها.

وفي الرد: مطلب الحرمة تتعدد (قوله الحرمة تتعدد إلخ) نقل الحموي عن سيدي عبد الوهاب الشعراني أنه قال في كتابه المنن: وما نقل عن بعض الحنيفة من أن الحرام لا يتعدى ذمتين، سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال: هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك، أما لو رأى المكاس مثلا يأخذ من أحد شيئا من المكس ثم يعطيه آخر ثم يأخذ من ذلك الآخر آخر فهو حرام اهـ ."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:5، ص:98، ط:سعيد)

3:جس گھر میں حلال و حرام دونوں قسم آمدنی آتی ہو،اور دونوں میں امتیاز ہوتا ہو،تو حلال آمدنی کا استعمال جائز اور حرام کا استعمال ناجائز ہوگا،تاہم اگر حلال و حرام دونوں قسم کی آمدنی مخلوط ہو،اور امتیاز بھی ممکن نہ ہو،تو حرام کی کثرت کی صورت میں کُل مال کا استعمال ناجائز ہوگا۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"أن الحكم للغالب وإذا كان الغالب هو الحرام كان الكل حراما في وجوب الإجتناب عنها في حالة الإختيار.

وكذلك إن كانا متساويين لأن عند المساواة يغلب الحرام شرعا قال - صلى الله عليه وسلم -: «ما ‌اجتمع ‌الحرام والحلال في شيء إلا غلب الحرام الحلال» ولأن التحرز عن تناول الحرام فرض."

(كتاب التحري،ج:10،ص:197،ط:دارالمعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100547

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں