میں ایک کالج میں بچوں سے جرمانہ وصول کرتا ہوں۔کیا ضرورت پڑنے پر اپنے ذاتی بڑے نوٹ ان جرمانے والی رقم سے تڑوا سکتا ہوں یا نہیں؟
واضح رہے کہ تعزیر بالمال (یعنی مالی جرمانہ) شریعت میں جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں ہے کہ کسی انسان کا مال دوسرے انسان کے لیے اس کی طیبِ نفس کے بغیر لینا شرعاً حلال نہیں ہے اور مالی جرمانہ چوں کہ جبراً لیا جاتا ہے جس میں دینے والے کی طرف سے طیبِ نفس نہیں پایا جاتا، لہذا مذکورہ حدیث کی رو سے بھی اس کی اجازت نہیں، نیز مالی جرمانہ کو جائز رکھنے میں ظالموں کے لیے ظلماً مال لینے کا دروازہ کھل جائے گا جس کی شریعت میں قطعاً اجازت نہیں ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے جرمانہ وصول کرنا جائز ہی نہیں ہے، کیوں کہ یہ گناہ کے کام معاونت ہے، اور گناہ کے کام میں کسی کی معاونت (مدد) کرنا بھی ناجائز اور گناہ کا باعث ہے، اس بنا پر اب تک جن جن سے جرمانہ لیا گیا ہو تو ہر ایک کی رقم ان کو واپس کرنا ضروری ہے، اس رقم کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، اسی طرح نوٹ کے تبدیل کرنے میں بھی اگر طلبہ کی طرف سے اجازت ہو تو کرسکتے ہیں، ورنہ نہیں کرسکتے۔
قرآنِ مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
"وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ." (المائدة، 2)
ترجمہ: "اور گناہ وزیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور اللہ تعالی سے ڈرا کرو بلا شبہ اللہ تعالی سخت سزا دینے والے ہیں"۔ (بیان القرآن)
مشکاۃ شریف میں ہے:
"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لاتظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."
(کتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 1، ص: 443، رقم: 2945، ط: بشري)
ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خبردار کسی پر بھی ظلم نہ کرنا، اچھی طرح سنو! کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں ہے."
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة، إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي. وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ ... والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال."
(کتاب الحدود، باب التعزیر، مطلب في التعزير بأخذ المال، ج: 4، ص: 62،61، ط: سعید)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(وعنه) أي عن سمرة (عن النبي صلي الله عليه وسلم قال علي اليد ما أخذت) أي يجب علي اليد رد ما أخذته... قال الطيبي... ما أخذته اليد ضمان علی صاحبها والإسناد إلی اليد علی المبالغة لأنها هي المتصرفه (حتی تؤدي)... أي حتی تؤدِيه إلي مالكه فيجب رده في الغصب وإن لم يطلبه."
(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 6، ص: 137، ط: رشيدية)
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
"وقوله تعالى: {ولا تعاونوا على الأثم والعدوان} نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."
(سورة المائدة، ج: 2، ص: 381، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"وما كان سببا لمحظور فهو محظور اهـ."
(كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 350، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606101769
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن