بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جرابوں پر مسح کرنےکاحکم


سوال

موسمِ سرما میں میرے پاؤں سردی کی وجہ سے سوج جاتے ہیں اور پاؤں کی انگلیاں بھی شدید سوزش کا شکار ہو جاتی ہیں، اگر کوئی بھی چیز حتی کہ نرم کپڑا بھی انگلی کو چھو جائے تو شدید تکلیف ہوتی ہے اور اگر پاؤں کو پانی سے دھویا جائے تو سوزش بڑھ جاتی ہےتو کیا جرابیں پہن کر پاؤں پر مسح کر سکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہےکہ عام جرابوں پرمسح کرنےکی کسی صورت میں اجازت نہیں ہے،البتہ "خفین" پر( بہرصورت چاہےپاؤں دھونےکی وجہ سےتکلیف ہویانہ ہو)مسح  کرنا جائز ہے اور "خفین"ایسے موزوں کو کہتے ہیں جو پورے چمڑے کے ہوں، اسی طرح  "مجلّد" یعنی وہ موزے جن کے اوپر اور نچلے حصے میں چمڑا ہو ، اور "منعّل"یعنی وہ موزے جن کے صرف نچلے حصے میں چمڑا ہو  ان تینوں پر مسح کرنا جائز ہے۔

 نیز اگرجرابیں ایسی ہوں ،جن میں  درجہ ذیل تین شرطیں پائی جائیں تو  ان پر بھی مسح کرنا جائز ہے، وہ شرائط یہ ہیں:

(1) ایسے گاڑھے (موٹے) ہوں کہ ان میں پانی نہ چھنے یعنی اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو پاؤں تک نہ پہنچے۔

(2)  اتنے مضبوط ہوں کہ بغیر جوتوں کے بھی اس میں  تین میل پیدل چلنا ممکن ہو۔

(3) وہ کسی  چیز سے باندھے بغیر اپنی موٹائی اور سختی کی وجہ سے  پنڈلی پر خود قائم رہ سکیں، اور یہ کھڑا رہنا کپڑے کی تنگی اور چستی کی وجہ سے نہ ہو ۔

  ان کے علاوہ  باقی اونی، سوتی یانائلون کی مروجہ جرابوں پر مسح کرنا ائمہ متبوعین میں سے کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے۔

نیز یاد رہےکہ موزوں پرمسح کی مدت مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات یعنی چوبیس گھنٹے ہیں ، جب کہ مسافر کے لئے تین دن اور تین راتیں یعنی بہتر گھنٹے ہیں، یہ مدت موزے پہننے کے بعد پہلی بار وضو ٹوٹنے کے بعد سے شروع ہوتی ہے، اس دوران اگر کوئی وضو توڑنے والی صورت پیش آئے تو وضو ٹوٹ  جاتا ہے اور  دوبارہ وضو کرنا بھی لازم ہوتاہے، البتہ پیر دھونے کی بجائے ان پر مسح کرنا جائز ہوتا ہے۔نیز وضو کر کے موزے پہنے جائیں تب موزے پر مسح جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌أو ‌جوربيه) ‌ولو ‌من ‌غزل أو شعر (الثخينين) بحيث يمشي فرسخا ويثبت على الساق بنفسه ولا يرى ما تحته ولا يشف إلا أن ينفذ إلى الخف قدر الغرض۔ ‌(قوله ‌على ‌الثخينين) أي اللذين ليسا مجلدين ولا منعلين نهر، وهذا التقييد مستفاد من عطف ما بعده عليه، وبه يعلم أنه نعت للجوربين فقط كما هو صريح عبارة الكنز. وأما شروط الخف فقد ذكرها أول الباب، ومثله الجرموق ولكونه من الجلد غالبا لم يقيده بالثخانة المفسرة بما ذكره الشارح؛ لأن الجلد الملبوس لا يكون إلا كذلك عادة (قوله بحيث يمشي فرسخا) أي فأكثر كما مر، وفاعل يمشي ضمير يعود على الجورب والإسناد إليه مجازي، أو على اللابس له والعائد محذوف أي به (قوله بنفسه) أي من غير شد ط (قوله ولا يشف) بتشديد الفاء، من شف الثوب: رق حتى رأيت ما وراءه، من باب ضرب مغرب. وفي بعض الكتب: ينشف بالنون قبل الشين، من نشف الثوب العرق كسمع ونصر شربه قاموس، والثاني أولى هنا لئلا يتكرر مع قوله تبعا للزيلعي ولا يرى ما تحته، لكن فسر في الخانية الأولى بأن لا يشف الجورب الماء إلى نفسه كالأديم والصرم، وفسر الثاني بأن لا يجاوز الماء إلى القدم وكأن تفسيره الأول مأخوذ من قولهم اشتف ما في الإناء شربه كله كما في القاموس، وعليه فلا تكرار فافهم (قوله إلا أن ينفذ) أي من البلل، وهذا راجع الى الجرموق لا الجوارب، لأن العادة فى الجورب أن يلبس وحده أو تحت الخف لا فوقه."

(كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين، 269/1، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100552

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں