بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

جبہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانا اسبال میں داخل ہے یانہیں؟


سوال

کیا جبہ کا ٹخنوں سے نیچے   لٹکانا اسبال میں داخل ہے ؟

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِزار ٹخنوں سے نیچے کرنے سے منع فرمایا ہے، بلکہ از روئے حدیث  تکبر کے انداز میں  کوئی بھی کپڑا لٹکانا ممنوع ہے، لہٰذا حدیث شریف میں صرف شلوار ٹخنوں سے نیچے کرنا ممنوع نہیں ہے، بلکہ جو بھی لباس  (تہہ بند یا شلوار، جبہ، چادر  وغیرہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکے، مردوں کے لیے ایسی وضع ممنوع ہے۔

جواب

شلوار کے  پائنچے  ٹخنوں سے  نیچے  رکھنا  بقصدِ تکبر حرام ہے، اور بلاقصدِ تکبر مکروہِ تحریمی ہے،  اگر غیر ارادی طور پر کبھی شلوار کا پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹک جائے تو  معاف ہے  ،نیز  اس ممانعت کا تعلق صرف شلوار سے نہیں ہے،بلکہ اس ممانعت میں دیگر لباس مثلاً دھوتی ،پاجامہ ، جبہ ، قمیص   وغیرہ بھی داخل ہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جبہ کا ٹخنوں  سے نیچے   ہونا اسبال میں داخل ہے اس لیے اس طرح جبہ بنانے پہننے سے احتراز لازم ہے۔

امدادالفتاوی میں ہے:

ٹخنوں سے نیچے پاجامہ یا تہبند لٹکانا ودفع شبہ متعلقہ مسئلہ مذکورہ 

سوال (۲۴۱۷) : -   زید کا خیال ہے کہ از ار تحت الکعبین ممنوع اس وقت ہے جب کہ براہ تکبّر وخیلاء ہو جیسا کہ عرب کا دُستور تھا کہ اس پر فخر کیا کرتے تھے، اور جب کہ تکبراً نہ ہو محض خوبصورتی اور زینت کیلئے ایسا کرے تو جائز ہے، اور زینت محض امر ذوقی ہے، ایک ہی امر ایک کو پسند ہوتا ہے، دوسرا ناپسند کرتا ہے، اختلاف ملک، اختلاف رواج کی وجہ سے بہت فرق ہوجاتا ہے، جس طرح نصف ساق تک پائجامہ اور اُس سے بھی اُونچا بُرا لگتا ہے، اسی طرح مافوق الکعبین بہ نسبت ماتحت الکعبین کے ابناء زماں کی نظر میں بدنما لگتا ہے، صرف اس بدنما لگنے کی وجہ سے نیچا پہنتے ہیں ، رہا کبر اور تفاخر سود و چار اُنگل کے گھٹنے بڑھنے سے ہرگز نہیں ہوسکتا؛ بلکہ زینت و پسنددید گی اس کی باعث ہے، چنانچہ احادیث میں اکثر یہ قید مذکور ہے" من جر إزارہ خیلاء"  وغیرہ میں خیلاء کی قید ضرور ہے اور جو حدیثیں مطلق ہیں ، جیسے"ما أسفل من الکعبین من الإزار ففي النار " وغیرہ وہ بھی حسب دُستور عرب اسی قید پر محمول ہیں اور مطلق کا مقید پر محمول نہ ہونا اس وقت ہے جب کہ مطلق و مقید دونوں دو واقعہ پر آئے ہوں ، جیسے کفارہ قتل و کفارہ ظہار اور اتحاد واقعہ کے وقت حسب اصول حنفیہ مطلق مقید پر محمول ہوجاتاہے، جیسے کفارہ قسم کا، قرأت ابن مسعود متتابعات کے ساتھ مقید ہوجانا، نیز اس کی مؤید وہ حدیث ہے کہ حضرت نے مااسفل من الکعبین کی وعید بیان کی اور فرمایا" من جرثوبه خیلاء لن ینظر اللّٰہ إلیه یوم القیامة "تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ میری ازار لٹک پڑتی ہے،  إلا أن أتعاھدتو حضرت نے  فرمایا:إنک لست ممن تفعلہ خیلاء۔ رواہ البخاري کذا في المشکوٰۃ ۔ پس اگر مطلقاً جرِازار ممنوع ہوتا، تو آپ اجازت نہ دیتے، تو معلوم ہوا کہ یہ وعید خیلاء ہی کی صورت میں ہے اور بلا اس کے جائز ہے، اس شبہ کا حل مطلوب ہے؟

الجواب:في نورالأنوار،بحث حمل المطلق علی المقید في حکم واحد ما نصہ: وفي صدقۃ الفطر ورد النصان في السبب، ولا مزاحمۃ في الأسباب فوجب الجمیع بینہما یعني أن ما قلنا إنہ یحمل المطلق علی المقید في الحادثۃ الواحدۃ والحکم الواحد إنما ھو إذا وردا في الحکم للتضاد، وأما إذا وردا في الأسباب أو الشروط فلا مضایقۃ فیہ ولاتضاد، فیمکن أن یکون المطلق سببا بإطلاقہ، والمقید سببا بتقییدہ اھ ۔

اور ما نحن فیہ میں حکم معصیت ہے اور مطلق جر اور جر للخیلاء اسباب اس کے ہیں ، یہاں مطلق مقید پر محمول کرنے کی کوئی وجہ نہیں ، پس مطلق جر کو بھی حرام کہیں گے اور جر للخیلاء کو بھی؛ البتہ دونوں حرمتوں میں اگر کسی قدر تفاوت مانا جائے تو گنجائش ہے؛ کیونکہ ایک جگہ ایک منہی عنہ کا ارتکاب ہے، یعنی جر کا اور دوسری جگہ دو منہی عنہ کا ارتکاب ہے، یعنی جر کا اور خیلاء کا، پس یہ کہنا کہ چونکہ عرب کا دُستور یہی تھا کہ فخراً ایسا کرتے تھے اس لئے حرمت اسی کی ہوگی بلا دلیل ہے؛ کیونکہ خصوص مورد سے خصوص حکم لازم نہیں آتا، جب کہ الفاظ میں عموم ہو ۔ ویتفرع علیہ کثیر من الأحکام الفقہیۃ۔ رہا قصّہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا، میرے نزدیک اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہإنك لست تفعله بالاختیار والقصدچنانچہ      إلا أن أتعاهد  اس کی دلیل ہے کہ بلا قصد ایسا ہوجاتا تھا، اور اسی کا حضور ﷺنے جواب دیا ہے ۔ رہا للخیلاء کی قید، یہ اس بنا پر ہے کہ اکثر جو لوگ اس فعل کو باختیار کرتے ہیں وہ براہ خیلاء کرتے ہیں ، پس حدیث میں اطلاق سبب (یعنی فعلہ بالخیلاء) کا مسبب (یعنی فعل بالاختیار) پر ہوا ہے۔ وہو شائع في الکلام أي شیوع۔ فقط واللہ اعلم

وفیه أيضا:

بدون خیلاء اسبال ازار کی کراہت پر اشکال کا جواب

سوال (۲۴۱۸) :   آنجناب کے کسی رسالہ کے منہیہ سے مفہوم ہوتا ہے کہ اسبال مطلقاً ممنوع ہے حالانکہ بعض احادیث میں خیلاء کی قید موجود ہے۔

والمطلق یحمل علی المقید، وأیضا یؤیدہ ما في تاریخ الخلفاء للسیوطي مانصه أخرج البخاري عن ابن عمرؓ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: من جرثوبه خیلاء لم ینظر اللّٰہ إلیه یوم القیٰمة، فقال أبوبکرؓ: إن أحد شقي ثوبي یسترخی إلا أن أتعاهد ذلک منه، فقال رسول اللّٰہﷺ: إنك لست تصنع ذلك خیلاء۔  تاریخ الخلفاء في فصل في الأحادیث الواردۃ في فضل أبی بکر الصدیق مقرونا بعمر رضی اللہ عنہما  ۔وإلیه ذهب الشیخ ولي اللّٰہ المحدث الدھلوي في المصفی

الجواب: حنفیہ کے نزدیک ایسی صورت میں مطلق اپنے اطلاق پر اور مقید اپنی تقیید پر رہتا ہے اور دونوں پر عمل واجب ہوتا ہے۔ کما هو مصرح في الأصول ۔ اور جو حدیث تائید میں نقل کی ہے خود سوال میں تصریح ہے کہ وہ عمداً نہ کرتے تھے پس جواب کے بھی یہی معنی ہیں ۔إنك لست تصنع ذٰلک عمداً۔ چونکہ خیلاء سبب ہوتا ہے تعمد کا، پس سبب بول کر مسبب مرا د لیا گیا۔

(کتاب الحظر والإباحة، احکام متعلقہ  لباس، ج:4، ص:122، ط:دارالعلوم کراچی)

صحیح البخاری  میں ہے:

"‌‌ - باب ما أسفل من الكعبين فهو في النار.

 [5787] حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "ما ‌أسفل ‌من ‌الكعبين ‌من ‌الإزار ففي النار ."

(كتاب اللباس،باب ما أسفل من الكعبين فهو في النار،ج:7، ص:409، ط:دار التأصيل - القاهرة)

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ازقسم ازار (یعنی پائجامہ وغیرہ) کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا،وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔"(مظاہرِ حق )

فیض الباری میں ہے:

"قوله: (من جر ثوبه خيلاء) وجر الثوب ممنوع عندنا مطلقا، فهو إذن من أحكام اللباس، وقصر الشافعية النهي على قيد المخيلة ، فإن كان الجر بدون التكبر، فهو جائز، وإذن لا يكون الحديث من أحكام اللباس والأقرب ما ذهب إليه الحنفية، لأن الخيلاء ممنوع في نفسه، ولا اختصاص له بالجر، وأما قوله صلى الله عليه وسلم لأبي بكر: «إنك لست ممن يجر إزاره خيلاء»، ففيه تعليل بأمر مناسب، وإن لم يكن مناطا فعلة الإباحة فيه عدم الاستمساك إلا بالتعهد، إلا أنه زاد عليه بأمر يفيد الإباحة، ويؤكدها. ولعل المصنف أيضا يوافقنا، فإنه أخرج الحديث في اللباس، وسؤال أبي بكر أيضا يؤيد ما قلنا، فإنه يدل على أنه حمل النهي على العموم، ولو كان عنده قيد الخيلاء مناطا للنهي، لما كان لسؤاله معنى. والتعليل بأمر مناسب طريق معهود. ولنا أن نقول أيضا: إن جر الإزار خيلاء ممنوع لمن يتمسك إزاره، فليس المحط الخيلاء فقط."

(كتاب اللباس، باب من جر ثوبه من الخيلاء،ج:6،ص:72،ط:دار الكتب العلمية)

عمدۃ القاری میں ہے:

"(من جر ثوبه) يدخل فيه الإزار والرداء والقميص والسراويل والجبة والقباء وغير ذلك مما يسمى ثوبا".

(كتاب اللباس، ج:21، ص:295، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144608100613

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں