بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جنگلی جانوروں کی قربانی کا حکم


سوال

جنگلی جانوروں کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ قربانی کے جانور شرعی طور پر متعین ہیں،  جن میں اونٹ ،گائے، دنبہ ، بھیڑ ، بکرا، مینڈھا (مذکر ومؤنث )شامل ہیں،بھینس گائےکی جنس میں سے ہے، لہذا اس کی قربانی بھی جائز ہے، اسی طرح آسٹریلین گائے بھی چوں کہ گائے ہے اس کی قربانی بھی درست ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور  جانور کی قربانی درست نہیں ہوتی، لہذا جنگلی جانور (ہرن، مارخور، جنگلی گائے وغیرہ)جن کا گوشت اگرچہ حلال ہو، اُن کی قربانی جائز نہیں ہے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"(ولا يجوز في الضحايا والواجبات بقر الوحش وحمر الوحش والظبي)؛ لأن الأضحية عرفت قربة بالشرع، وإنما ورد الشرع بها من الأنعام، ولأن إراقة الدم من الوحشي ليس بقربة أصلا والقربة لا تتأدى بما ليس بقربة."

(كتاب الذبائح، بيع جلد الأضحية بعد الذبح، ج:12، ص:17، ط:دار المعرفة)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(أما جنسه) : فهو أن يكون من الأجناس الثلاثة: الغنم أو الإبل أو البقر، ويدخل في كل جنس نوعه، والذكر والأنثى منه والخصي والفحل لانطلاق اسم الجنس على ذلك، والمعز نوع من الغنم والجاموس نوع من البقر، ولا يجوز في الأضاحي شيء من الوحشي، فإن كان متولدا من الوحشي والإنسي فالعبرة للأم، فإن كانت أهلية تجوز وإلا فلا، حتى لو كانت البقرة وحشية والثور أهليا لم تجز، وقيل: إذا نزا ظبي على شاة أهلية، فإن ولدت شاة تجوز التضحية، وإن ولدت ظبيا لا تجوز، وقيل: إن ولدت الرمكة من حمار وحشي حمارا لا يؤكل، وإن ولدت فرسا فحكمه حكم الفرس، وإن ضحى بظبية وحشية أنست أو ببقرة وحشية أنست لم تجز."

(كتاب الأضحية، الباب الخامس في بيان محل إقامة الواجب، ج:5، ص:297، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101989

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں