بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جنبی شخص سے ملنے کی وجہ سے غسل کے واجب ہونے کا حکم / واجب غسل میں تاخیر کرنے کا حکم


سوال

 اگر کسی شخص پر غسل لازمی ہو جائے اور بوجہ مجبوری یعنی راستے میں ہو یا کسی اجنبی کے گھر ہو اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اگر غسل نہ کر سکے اور کسی اور شخص سے ملے تو کیا  اس سے ملنے والے شخص پر بھی غسل فرض ہوجائے گا اور تاخیر کرنے سے گناہ گار ہو گا؟

جواب

۱)اگر کسی شخص پر جنبی ہونے کی وجہ سے غسل واجب ہوجائے تو غسل کیے بغیر حالتِ جنابت میں کسی دوسرے شخص سے ہاتھ ملانے یا گلے لگنے وغیرہ سے دوسرے شخص پر غسل واجب نہیں ہوتا ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ جنابت کی حالت میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ہوگئی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  چھپکے سے گئے  اور  جلدی  سے  غسل کرکے آگئے، رسول اللہ ﷺ   نے  دریافت  فرمایا کہ آپ کہاں گئے تھے؟ انہوں نے عذر کیا کہ میں ناپاک تھا، اس لیے غسل کرنے گیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: مؤمن ناپاک نہیں ہوتا، یعنی جنابت سے پورا جسم حقیقتًا ناپاک نہیں ہوتا، بلکہ اس سے حکمی ناپاکی لاحق ہوتی ہے، لہٰذا جنبی کے ہاتھ ملانے سے دوسرے شخص کا جسم ناپاک نہیں ہوگا، نہ ہی اس پر غسل فرض ہوگا۔

سنن الترمذي (1 / 207):

"عن أبي هريرة : أن النبي صلى الله عليه و سلم لقيه وهو جنب قال: [ فانبجست أي ] فانخنست فاغتسلت ثم جئت، فقال: أين كنت؟ أو أين ذهبت؟ قلت: إني كنت جنبًا، قال: إن المسلم لاينجس. قال أبو عيسى: [ و ] حديث أبي هريرة [ أنه لقي النبي صلى الله عليه و سلم وهو جنب ] حديث حسن صحيح، و قد رخص غير واحد من أهل العلم في مصافحة الجنب ولم يروا بعرق الجنب والحائض بأسًا [ ومعنى قوله فانخنست يعني تنحيت عنه ]".

سنن ابن ماجه - باقي + ألباني - (1 / 178):

"عن أبي هريرة  : أنه لقيه النبي صلى الله عليه و سلم في طريق من طريق المدينة وهو جنب، فانسل، ففقده النبي صلى الله عليه و سلم، فلما جاء قال: (أين كنت يا أبا هريرة ؟) قال: يا رسول الله لقيتني وأنا جنب، فكرهت أن أجالسك حتى أغتسل، فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم: (المؤمن لاينجس)".

۲)غسل فرض ہوجانے کے بعد جس قدر جلدی غسل کرلے بہتر ہے، تاہم اگر کسی وجہ سے فرض غسل میں تاخیرکرنا پڑجائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، بشرط یہ کہ غسل میں تاخیر کی صورت میں نماز قضا نہ ہو، ایسی صورت میں اس وقت تک کے لیے  ہاتھ منہ دھولے یا وضو کرلے۔

الفتاوى الهندية (1/ 16):

’’ الجنب إذا أخر الاغتسال إلى وقت الصلاة لا يأثم، كذا في المحيط.

قد نقل الشيخ سراج الدين الهندي الإجماع على أنه لا يجب الوضوء على المحدث و الغسل على الجنب و الحائض و النفساء قبل وجوب الصلاة أو إرادة ما لا يحل إلا به، كذا في البحر الرائق كالصلاة و سجدة التلاوة و مس المصحف و نحوه، كذا في محيط السرخسي‘‘.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200373

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں