بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جنبی کی صبح صادق کے بعد آنکھ کھلی تو روزہ کا حکم


سوال

میں کل اپنی بیوی سے ملا اور سو گیا، اور ہماری سحری رہ گئی، صبح اٹھ کے غسل کیا، روزے کی نیت تو نہیں کی، لیکن میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ روزہ ہوگا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ رمضان المبارک کے روزے  کے لیے رات سے نیت کرنا شرط نہیں، بلکہ نصف النہار شرعی(یعنی صبح صادق اور مغرب کے درمیانی وقت) سے پہلے پہلے نیت کرلینا بھی کافی ہے۔ نیز روزے کی نیت درست ہونے  کے لیے پاکی بھی شرط نہیں، بلکہ  اگر کسی شخص  پر غسل واجب  ہو اور وہ صبح صاد ق سے پہلے غسل نہ کرسکے  اور سحری کرکے یا بغیر سحری کے روزہ رکھ لے تو اس کا روزہ درست ہے،   ناپاک ہونے کی وجہ سے  روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، البتہ  اس کے بعد  پھر جلد از جلد غسل کرلینا چاہیے، غسل میں اتنی تاخیر کرنا کہ  فجر کی  نماز قضا ہوجائے گناہ کا باعث ہے۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں جب سائل کی آنکھ جب سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد کھلی تھی، اور آنکھ  کھلنے کے بعد  اگر کچھ کھایا پیا نہ تھا  تو نصف النہار شرعی (یعنی صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک، روزے کے مکمل وقت کا نصف گزرنے) سے پہلے روزہ  کی نیت کرلینی  چاہیے تھی،بہرحال اگر غلط فہمی(کہ اب روزہ نہیں رکھ سکتے)  یا مسئلہ معلوم نہ ہونےکی بنا  پر  روزہ نہیں رکھا تو ایک روزہ کی قضا لازم ہوگی ،  کفارہ   لازم نہیں ہوگا۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ'نیت'  دل کے قصد و ارادے کا نام ہے؛نیت کے الفاظ زبان سے ادا کرنا شرعاً ضروری نہیں ہے، اسی طرح  اگر رات کو ہی یہ ارادہ کرلیا  کہ "کل میرا روزہ ہوگا" تو  یہ بھی روزہ کی نیت میں داخل ہے (چاہے پھر صبح صادق کے بعد دوبارہ نیت نہ کی ہو)۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(أو أصبح جنبًا و) إن بقي كل اليوم ... (لم يفطر)".

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، (2/ 400)،ط:سعید)

مرقات میں ہے:

"وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدركه الفجر في رمضان وهو جنب من غير حلم فيغتسل ويصوم.

(قالت: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يدركه الفجر) أي الصبح (في رمضان) أي في بعض الأحيان.... (من غير حلم) بضم الحاء وسكون اللام ويضم، وهو صفة مميزة أي من غير احتلام بل من جماع، فإن الثاني أمر اختياري فيعرف حكم الأول بطريق الأولى، بل ولو وقع الاحتلام في حال الصيام لا يضر... (فيغتسل ويصوم) ظاهر الحديث قول عامة العلماء: من أصبح جنبا اغتسل وأتم صومه،... وقال البيضاوي في قوله - تعالى - {فالآن باشروهن} [البقرة: 187] الآية: في تجويز المباشرة إلى الصبح الدلالة على جواز تأخير الغسل إليه وصحة صوم المصبح جنبا،قال الطيبي: لأن المباشرة إذا كانت مباحة إلى الانفجار لم يمكنه الاغتسال إلا بعد الصبح اهـ"

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ،باب تنزيه الصوم، الفصل الأول،(4 / 430)،ط:رشیدیہ)

فتاویٰ ہندیہ  میں ہے:

'وشرط صحة الأداء النية... و النية معرفته بقلبه أن يصوم، كذا في الخلاصة و محيط السرخسي... و السنة أن يتلفظ بها، كذا في النهر الفائق... ثم عندنا لابد من النية لكل يوم في رمضان، كذا في فتاوي قاضيخان، والتسحر في رمضان نية'.

(كتاب الصوم ،الباب الأول في تعريفه وتقسيمه وسببه ووقته وشرطه،١/ ١٩٥،  ط: رشيدية) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100304

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں