بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جنبی امامت کروالے تواس نماز کیاحکم ہے؟


سوال

زید ایک پڑھا لکھا شخص ہے،  اس کی نئی نئی شادی ہوئی،  ایک دن دوران ملاعبت التقائے ختانین کے سبب وہ جنابت میں چلا گیا (انزال نہیں ہوا)،  لیکن اس کے ذہن سے بالکل نکل چکا تھا کہ التقاءِ  ختانین کے سبب بھی غسل ٹوٹ جاتا ہے،  اس کو یاد اس وقت آیا جس وقت وہ ایک عدد مغرب کی نماز میں امامت کر چکا تھا،  اب وہ نہایت شرمندہ ہے، اگر لوگوں کو نماز دہرانے کا کہے گا تو مزید شرمندگی ہوگی، کوئی مناسب حل تجویز فرما دیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص (زید)نے  جنابت کی حالت میں مغرب کی نمازکی امامت کروائی ہے، تو ایسی صورت میں  مذکورہ  مغرب کی نماز ادا نہيں ہوئی، اس ليے  اس نماز کا اعادہ لازم ہے، اب  امام کو  چاہیے کہ کسی دن یہ اعلان کردے کہ فلاں دن کی مغرب کی فرض نماز کا اعادہ کرلیں؛ تاکہ وہ اپنی نماز کا اعادہ کرلیں، اعلان کرنے میں شرمندگی محسوس نہیں کرنی چاہیے، قیامت کے دن مقتدیوں  کی نمازوں کی جواب دہی  امام   پر ہوگی، اور وہاں سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑےگا، باقی زیر نظر مسئلہ میں  اعلان کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ ’’کسی عذر کی وجہ سے نماز نہیں ہوئی‘‘مقتدیوں کو  پوری تفصیل بتلانا ضروری نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا ظهر حدث إمامه) وكذا كل مفسد في رأي مقتد (بطلت فيلزم إعادتها)؛ لتضمنها صلاة المؤتم صحةً وفساداً (كما يلزم الإمام إخبار القوم إذا أمهم وهو محدث أو جنب) أو فاقد شرط أو ركن. وهل عليهم إعادتها إن عدلاً، نعم، وإلا ندبت، وقيل: لا لفسقه باعترافه ؛ ولو زعم أنه كافر لم يقبل منه؛ لأن الصلاة دليل الإسلام وأجبر عليه (بالقدر الممكن) بلسانه أو (بكتاب أو رسول على الأصح) لو معينين وإلا لايلزمه، بحر عن المعراج. وصحح في مجمع الفتاوى عدمه مطلقاً؛ لكونه عن خطأ معفو عنه، لكن الشروح مرجحة على الفتاوى."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج: 1، ص:591،ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101406

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں