بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی پہلی اذان کے بعد مسجد کے دروازے پر خرید و فروخت


سوال

ہم مدرسے(درس نظامی) درجہ دورہ حدیث کے طالب علم ہیں اور ہمارے ہم جماعت ساتھیوں میں سے بعض سٹال (ٹوپی ،خوشبو ،تسبیح ، مسواک وغیرہ) جامع مساجد کے باہر لگاتے ہیں ، اُن سے جب کہا جاتا ہے کہ جمعہ کی پہلی اذان کے بعد بیع و شراء جائز نہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ ممانعت تب ہے جب جمعہ کی سعی میں یہ بیع و شراء رکاوٹ بنے جب کہ ان کے مطابق یہ بیع و شراء جو مسجد کے دروازے پر کی جاتی ہے اس سے جمعہ کی سعی میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں، بلکہ لوگ گھر سے تیار ہوکر مسجد آتے ہیں اور ایک دو منٹ میں ٹوپی وغیرہ خرید کر مسجد چلے جاتے ہیں ، لہذا یہ عمل جائز ہے۔  جب کہ ایک استاد صاحب کا بھی یہ کہنا ہے کہ اس میں کوئی قباحت والی بات نہیں ہے۔نیز بطور دلیل قدوری کا ایک مسئلہ (جس میں جمعہ کے  لیے جاتے ہوئے کشتی میں دو افراد آپس میں بیع و شراء کرتے ہیں۔) سے استدلال کیا جاتا ہے کہ وہ جائز تو یہ بھی جائز ، کیا یہ استدلال اور یہ مساجد کے باہر سٹال(بیع و شراء کرنا)لگانا جمعہ کی پہلی اذان کے بعد کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ اور اس سے حاصل ہونے والی کمائی کیا حلال ہے؟ کیا کسی طرح کا کوئی بھی حیلہ یا دلیل اس معاملے میں واضح نص قطعی (سورت الجمعہ آیت نمبر 9 ) کے مقابل پیش کیا جا سکتا ہے ؟  واضح دلائل اور ثبوت کے باوجود کیا ،یہ بیع (جمعہ کی پہلی اذان سے نماز جمعہ تک) اور  اس سے حاصل ہونے والی کمائی اور قرآن حکیم کی اس آیت کے حکم کو نہ ماننے والے کو کیا کہا جائے ؟ کیا اس تاویل باطلہ سے وہ لوگ کافر تو نہیں ہوجائیں  گے ؟ کیوں کہ وہ صراحتاً ایک حکم شرعی سے منہ پھیرنے والے ہیں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں پہلی اذان کے بعد کاروبار ممنوع ہے چاہے مسجد کے دروازے پر ہو۔  جمعہ كے  لیے جاتے ہوئے راستے ميں چلتے ہوئے بيع و شراء كرنےميں بھي احتیاط  اولیٰ ہے؛  لہذا  ان کواذانِ  اول کے بعد بیع کو ترک کرکے جمعہ کی طرف متوجہ ہوجانا چاہیے۔ نیز ان کا یہ کہناکہ لوگ مسجد جاتے ہوئے خریداری کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں ، درست نہیں، اس  لیے کہ قرآنِ  کریم  میں بیع کو ترک کرنے کا حکم ہے جو شراء کے ترک کا سبب بنتا ہے، اگر یہ اپنا اسٹال لگائیں گے تو  دیگر مسلمان ان کی وجہ سے ترکِ سعی کے مرتکب ہوں گے؛ لہذا غیر ضروری اور غیر شرعی  امر کے  لیے حیلے کرنا درست نہیں۔

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"قوله: وإذا أذن المؤذن يوم الجمعة الأذان الأول ترك الناس البيع والشراء وتوجهوا إلى الجمعة) قدم ذكر البيع على ذكر الشراء؛ لأن الإيجاب مقدم على القبول والمراد من البيع والشراء ما يشغلهم عن السعي حتى إنه إذا اشتغل بعمل آخر سواه يكره أيضا ولا يكره البيع والشراء في حالة السعي إذا لم يشغلہ."

(الجوهرة النيرة،باب صلاة الجمعة، 92/1، المكتبة الخيرية)

الدر المختار میں ہے:

"(ووجب سعي إليها وترك البيع) ولو مع السعي، في المسجد أعظم وزرا (بالأذان الأول) في الأصح .... وفی الرد: (قوله وترك البيع) أراد به كل عمل ينافي السعي وخصه اتباعا للآية نهر (قوله: ولو مع السعي) صرح في السراج بعدم الكراهة إذا لم يشغله بحر وينبغي التعويل على الأول نهر."

(الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الصلاة، باب الجمعة،161/2، سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408100964

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں