بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کے دن سفر کے لیے نکلنا


سوال

میں کہیں گھومنے  کی غرض سے جاؤں اور مجھے معلوم ہے کہ وہاں جمعہ کی نماز نہیں ملے گی، اور مجھے انفرادی نماز پڑھنی ہوگی ، تو کیایہ گناہ ہے؟

جواب

جمعہ کے دن سفر کرنا یا جائز سیر و تفریح کی غرض سے نکلنا درست ہے، جمعہ کے دن صبح سے لے کر جمعہ کا وقت آنے سے قبل سفر کرنے کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، احناف کے ہاں اس وقت سفر کرنے کی اجازت ہے، تاہم  جب آدمی کو معلوم ہو کہ اس کی وجہ سے نماز جمعہ فوت ہوجائے گی تو  اس صورت میں نماز جمعہ سے قبل نکلنے کے بجائے جمعہ کی نماز اداکرنے کے بعد سفر شروع کرنا چاہیے۔
اور اگر جمعہ کا وقت داخل ہوجائے یعنی زوال کے بعد اس صورت میں سفر کے لیے نکلنے کی اجازت نہیں، زوال کے بعد نماز سے قبل سفر کرنامنع ہے۔

اور اگر سائل کا سوال  شہر کے اندر یا شہر کے مضافات میں سیر و تفریح کی غرض سے جانے کے بارے میں ہے، تو شہر کے اندر رہتے ہوئے تفریح کی وجہ سے جمعہ چھوڑنا جائز نہیں ہے، لہٰذا ایسی ترتیب بنائی جائے کہ جمعہ کی نماز کسی بھی مسجد میں ادا کرنا ممکن ہو، اور شہر کے مضافات میں کسی فارم ہاؤس وغیرہ میں جانا ہو تو وہاں موجود بالغ مردوں کے ساتھ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کی ترتیب بنالی جائے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق(5 / 177):
"وفي التجنيس: الرجل إذا أراد السفر يوم الجمعة لا بأس به إذا خرج من العمران قبل خروج وقت الظهر؛ لأنّ الوجوب بآخر الوقت وآخر الوقت هو مسافر فلم يجب عليه صلاة الجمعة، قال رضي الله عنه: وحكي عن شمس الأئمة الحلواني أنه كان يقول: لي في هذه المسألة إشكال، وهو أن اعتبار آخر الوقت إنما يكون فيما ينفرد بأدائه، وهو سائر الصلوات، فأما الجمعة لاينفرد هو بأدائها، وإنما يؤديها الإمام والناس فينبغي أن يعتبر وقت أدائهم حتى إذا كان لايخرج من المصر قبل أداء الناس ينبغي أن يلزمه شهود الجمعة".

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (2 / 162):
"(لا بأس بالسفر يومها إذا خرج من عمران المصر قبل خروج وقت الظهر) كذا في الخانية، لكن عبارة الظهيرية وغيرها بلفظ ( دخول ) بدل ( خروج ) وقال في شرح المنية: و الصحيح أنه يكره السفر بعد الزوال قبل أن يصليها، ولايكره قبل الزوال".

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة - (2 / 190):
"نوع آخر في الرجل يريد السفر يوم الجمعة: وإنه على وجهين:

إن كان الخروج قبل الزوال فلا بأس به بلا خلاف؛ لأن الجمعة لاتجب قبل الزوال فلايصير بالخروج تاركاً فرضاً، وصار الخروج قبل الزوال، وليس فيه ترك فرض، نظير الخروج يوم الخميس، وإن كان الخروج بعد الزوال، فإن كان يمكنه أن يخرج من مصره قبل خروج وقت الظهر، فإنه لا بأس به بالخروج قبل إقامة الجمعة، وإن كان لايمكنه أن يخرج من مصره قبل خروج وقت الجمعة، فلاينبغي له أن يخرج، بل يشهد الجمعة ثم يخرج.وهذه المسألة لاتوجد بهذا التفصيل إلا في «السير»: وهذا بناءً إلى أصل معروف لنا أن وجوب الصلاة وسقوطها يتعلق بآخر الوقت، فمتى كان لايخرج وقت الظهر قبل خروجه من المصر، فهو صار مسافراً في آخر الوقت ولا جمعة على المسافر، ولايصير تارك فرض وإذا كان يخرج وقت الظهر قبل خروجه من مصره كان مقيماً في آخر الوقت، وهو في المصر وكان عليه إقامة الجمعة، فيصير بالخروج تاركاً فرضاً، فلايباح له الخروج". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201967

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں